پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر
پانامہ لیکس کی دوسری قسط نے بحیثیتِ قوم ہمار ے سرجھکادیے ہیں۔معاشرہ کتنا کرپشن زدہ ہے ،اس کا اندازہ اب ان لوگوں کوبھی اچھی طرح ہورہاہے جو ’سب ٹھیک ہے‘‘ کاوردکرتے آتے تھے۔ جہاں تک عوام کاتعلق ہے ،ان سے زیادہ کسے معلوم ہے کہ یہاں کرپشن کس حدتک ہے۔ یہ درست ہے کہ ان بے چاروں کی رسائی وزراء اوراعلیٰ افسران تک نہیں ۔صنعت کاروں کے بنگلوں اورسرمایہ داروں کی حویلیوں میں ان کاگزراسی وقت ہوتاہے جب وہاں محنت مزدوری والی کسی معمولی خدمت کی ضرورت ہو۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ہونے والی کرپشن کاسارابوجھ یہی بیس کروڑ عوام برداشت کررہے ہیں۔ ہسپتالوں ،تعلیمی اداروں ،تھانوں ،عدالتوں ،کچہریوں اورپٹواری کے دفتروں تک کونسی جگہ ہے جہاں رشوت نہیں چل رہی ۔کونسی جگہ ہے جہاں میرٹ پرکا م ہورہاہو۔پہلے موٹر وے پولیس کی اچھی شہرت تھی مگرا ب وہاں بھی تلخ تجربات سامنے آرہے ہیں۔ عام ٹریفک پولیس کی توبات ہی کیا ہے۔ ہر شخص ان کے رشوت خور گماشتوں کے ہاتھوں پریشان۔ راشی افسران نے رشوت ستانی کا دائرہ بڑھانے کے لیے باقاعدہ دیہاڑی پر بندے رکھے ہوتے ہیں۔بہت سوں نے ٹھیکہ داری نظام بھی چلارکھاہے۔ کوئی بچ کرتودکھائے ان کے ہاتھ سے۔ مرے پر سودرے کے بمصداق عوام کی حالت توہرجگہ پتلی ہے۔ ایک معمولی سے مسئلے کے لیے جوتے گھس جاتے ہیں۔عدالت سے انصاف ملنے کے انتظار میں بال سفید ہوجاتے ہیں ۔ہر جگہ ہر مسئلے کاحل ایک ہی ہے کہ نیلی اوربراؤن گڈیاں پیش کی جائیں۔جس کاجتناعہدہ ہے اور کام جس نوعیت کاہے،اس کاحساب لگا کر مطالبہ رکھاجاتاہے ۔ بریف کیس جاتے ہی فائل چل پڑتی ہے اور رکاہو اہر کام نکل آتاہے۔اور جس کے پاس یہ کراماتی کاغذ نہ ہوں ،اس کاکام اٹکارہتاہے۔
مگر کرپشن یابدعنوانی کامطلب صرف رشوت خوری نہیں ۔ ہر وہ کام جس میں قانون ،اخلاقی حدود یا دوسروں کے اعتماد کوپامال کرکے کوئی پست مفاد حاصل کیاجائے ،بدعنوانی ہے۔اپنے وعدے اورذمہ داری کو نظر اندازکرنابھی بدعنوانی ہے۔ذاتی غرض کے لیے اپنی جاہ وعزت کو بھی غلط طورپر استعمال کرنا بدعنوانی ہے۔ سرکاری یاوقف اثاثوں میں احتیاط نہ کرنابھی بدعنوانی ہے۔
کرپشن کامرض طاعون کی طرح ہے جوایک سے دوسرے کو لگتاہے اورقو م کوتباہ کرکے چھوڑتا ہے۔ یا آپ اسے آکاس بیل سمجھ لیں جو کسی پیڑ کاسہارالے کراٹھتی ہے اورپھراسے اپنے جال میں لے کر اس کا سارا عر ق اوررس نچوڑلیتی ہے۔اسے جلاکر سیاہ کردیتی ہے۔اس وقت ملک کا بالکل یہی حال ہے۔ اوپر سے نیچے تک اس مرض نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لیاہواہے۔اس مرض سے صرف وہی بچا ہوا ہے جس کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ کسی پر رعب ڈال سکے،کسی سے کچھ منواسکے،کسی کی جیب خالی کرسکے۔ جو ایسا کرسکتاہے ،ضرورکرتاہے چاہے پانچ روپے کی ہی بدعنوانی ہو،وہ کرگزرتاہے ۔
ان گھٹیا لوگوں کے قدموں تلے ملک کی اکثریت سسک رہیہے۔ اپنی بنیاد ی ضروریات کے لیے ترس رہی ہے ۔ا ن کی زندگی عملاً مویشیوں اورحیوانات جیسی ہے۔ زندہ رہنے کے بقدر غذاملتی ہے اوروہ بھی اس لیے کہ کچھ بڑوں کوان کی ضرورت ہے ۔وہ کسی کارخانے میں مزدورہیں ۔اگر وہ نہ ہوں توکارخانہ نہیں چلے گا۔ وہ کسی کوٹھی میں ملازم ہے۔ کسی کاڈرائیور ہے۔کہیں چوکی دار ہے۔ کسی جگہ کلکرک ہے۔ ہوٹل کاویٹر یا مارکیٹ میں سیلز مین ہے۔ اسے گزارے کے بقدر دیاجارہاہے تاکہ بڑوں کے مفادات کے لیے درکارافرادی وسائل باقی رہیں۔مگر جس ملک میں آبادی پہلے ہی بے روزگار ہے وہاں برسرِ روزگارلوگوں کی قیمت خود گھٹ جاتی ہے۔ ایک جاتاہے تو دس آمی قطار میں کھڑے ملتے ہیں۔ یہ غریب طبقہ ہے جسے انسانوں جیسی زندگی کاحق دار سمجھاہی نہیں گیا۔ان کی عزتیں لٹ جاتی ہیں ،بیوی بچے قتل ہوجاتے ہیں۔گھر کے سرپرست کو گولیوں سے بھون دیاجاتاہے۔ مگر قاتل آزاد پھرتے رہتے ہیں ۔کیونکہ ان کی جیبوں میں کرپشن کے دریاسے چند قطرے پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ ان قطروں میں سے ایک دوبھی اتنے نشہ آورہوتے ہیں کہ وردی والے اپناحلف بھول جاتے ہیں۔ مجرم مظلوم اورمظلوم کومجرم بنادیا جاتا ہے۔ اگلے دن فریادی حوالات میں ہوتاہے اوراپنے خلاف کیس بننے کی دھمکیاں اسے حیران کررہی ہوتی ہیں۔ وہ سوچتاہے کہ میں انسانوں کے بیچ رہنے والا جانور ہوں یاجانوروں کے چنگل میں آنے والاانسان ۔
یہ زہریلا معاشرہ صر ف ایک چیز کوبڑھاتاہے ۔وہ ہے بے ضمیری ،ایمان فروشی اوربدعنوانی۔ اس ریلے میں وہی جم سکتاہے جو اس کے ساتھ چلے ۔اپنے ضمیر کوبیچ دے ۔اگر افسر کرپٹ ہے تویہ اس کے غلط دھندوںمیں اس کامعاون بن جائے۔اگر صنعت کار یاتاجرملاوٹ کررہاہے تویہ اس کاعیب پوش بننے کے لیے تیار ہو۔ اسے ترقی بھی ملتی ہے ۔تنخواہ بھی بڑھتی ہے۔ گاڑی اوربنگلے کاسپنابھی جلد پورا ہوجاتاہے۔ اسے سب کچھ مل جاتاہے سوائے انسانیت اورشرافت کے۔
ملک کی مقتدرشخصیات، ان کے اہلِ خانہ ،اعزوہ واقارب ، دوست احباب،سب کرپشن کے تالاب میں غسل کررہے ہیں۔ لگتاہے کسی نے مرنانہیں ،کسی نے اللہ کوجواب نہیں دینا،زندگی اورموت ان کے اپنے قبضے میں ہے ۔جب تک چاہیں گے ،جتناچاہیں گے کالادھن کمائیں گے اور اسے جمع کر کرکے گل چھرے اڑائیں گے۔سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے جو کروڑوں روپے برآمد ہوئے ہیں ،اس نے بہت سے سوال اٹھادیے ہیں ۔اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی تھی اورکس لیے ۔ اسے کن ہاتھوں تک پہنچانامقصود تھااوران سے کیا کام لیے جانے تھے۔ ابھی بہت سے پردے اٹھیں گے اورایسے بہت سے سوالات سامنے آئیں گے۔
مگر ان تمام حالات کے باوجود مایوسی کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے اہلِ ایمان کو ہر بحران میں ڈوب ڈوب کرابھرنے کی صلاحیت دی ہے۔ بدعنوانی کے ا س سیلاب میں بھی کچھ لوگ ہیں جن کے ہاتھ صاف ہیں ،جواپنے عہدے سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھاناحرام سمجھتے ہیں۔ روایتی سیاست دانوں سے ہمیں امید نہیں کہ وہ قوم کواس بحران سے نکال سکیں ۔چاہے وہ حکومت میں ہوں یااپوزیشن میں۔ اس وقت کرپشن مکاؤ کانعرہ لگاکر دھرنادینے والے خود کرپٹ ہیں ۔جو لوگ واقعی بے لوث اوردیانت دارہیں ،وہ اب بھی خاموشی سے اپناکام کیے جارہے ہیں۔ قو م منتظر ہے اس وقت کی جب یہ لوگ آگے آئیں گے اورپاکستان کوکرپشن سے پاک ایسا ملک بنا کردکھائیں گے جس میں خداخوفی ،محاسبۂ نفس اورفکرِ آخر ت کاماحول عام ہوگا۔
٭٭٭٭