Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

44 - 52
ایک سو آٹھ سال کاسفر
(۲۳جولائی۱۹۰۸ء سے ۱۵جولائی ۲۰۱۶ء تک)
۲۳جولائی ۱۹۰۸ء کاسورج طلوع ہورہاتھا ۔استنبول کے گلی کوچوں میں سکوت طاری تھا۔قصرِ خلافت میں کوئی چہل پہل نہ تھی ۔ہر شے ماتمی لباس میں لپٹی محسوس ہوتی تھی۔ جوکچھ ہونے والاتھا،اس کے پیچھے ایک صدی کی محنت تھی۔مغربی مفکرین اورزعماء نے تعلیم ،میڈیااورلٹریچر کے ذریعے اپنی سوچ کو ترک نوجوانوں کی رگوں میں اتاردیاتھا۔سرکاری فوج مغربی افکار سے متاثر اور اسلامی روح سے محروم ہوچکی تھی۔ اگر فوج دین دار رہتی تو یہودی اوران کے تربیت یافتہ سیاست دان اورجدت پسند صحافی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی خلافتِ عثمانیہ کو جنبش نہیں دے سکتے تھے۔مگر اب آوے کا آوا بگڑ چکاتھا۔۱۹۰۱ء میں یہودیوں کے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمیدثانی سے فلسطین کے متعلق مذاکرات ناکام ہوگئے۔ خلیفہ نے ارضِ مقدس کی ایک انچ زمین دینے سے بھی انکار کردیا۔ تب صہیونی لابی نے خلافت کے خاتمے کاحتمی فیصلہ کرلیااورترک فوجی افسران صہیونیوں کاہراول دستہ ثابت ہوئے۔
۲۳ جولائی ۱۹۰۸ء کو باغی افسران نے سلطان عبدالحمید کاگھیراؤ کرکے خلیفہ سے بہت سے اہم اختیارات سلب کرلیے۔ترک عوام دم سادھے رہے ۔ان کے سامنے خلافت کی آن بان نیلام ہوگئی۔
مگرباغی اس پر مطمئن نہ ہوئے۔ ان کے حوصلے بڑھ گئے۔24اپریل۱۹۰۹ء کوباغی فوج لشکرِ حریت کانام اختیارکرکے استنبول میں داخل ہوئی اور کسی خاص مزاحمت کا سامناکیے بغیر شہر پرقبضہ کرلیا۔ اس کے فوراً بعد سلطان کے خلاف عوامی جذبات کومشتعل کرنے کے لیے دینی تعبیرات کا سہارا لیا گیااور شہر میں درج ذیل مضمون کی اشاعت کی گئی :
’’اے مسلمانو!ہم نے ظالم ،بے ایمان ،قرآن کوپامال کرنے والے،ایمان اورضمیرکوروندنے والے سلطان کے اقتدار سے تمہیں نجات دلادی ہے۔اے امتِ محمدیہ بیدارہوجاؤ۔دلیری اور شجاعت کامظاہرہ کرو۔اللہ مددکرے گا۔ اے توحید پرست مسلمان !اٹھ کھڑا ہو،اوراپنے دین کو ظالموں سے بچا۔یہاں ایک ظالم شیطان سرپرتاج آراستہ کیے بیٹھا ہے۔سلطان عبدالحمید شریعت کے لحاظ سے سلطان ہے نہ خلیفہ ۔اس کے خلاف اسلحہ اٹھانالازم ہے ۔جواس میں کوتاہی کرے گا، سلطان کے گناہوں کی ذمہ داری اسی پرہوگی۔‘‘
استنبول میں اب بھی کچھ نہ ہوا۔لوگ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کامصداق بنے رہے۔28اپریل کو فوج نے خلیفہ کی رہائش گاہ پر حملہ کیا ۔ سلطان کو گرفتار کرلیا گیا اور قصرِ خلافت کو لوٹ لیا گیا۔سلطان کو معزول کرنے کی ذمہ داری جس کمیٹی کے سپردکی گئی تھی اس کاسربراہ ’’عمانوئیل قراصو‘‘ نامی یہودی تھا جومقدونیہ کے فری میسن لاج کاگرینڈ ماسٹرتھا ۔ اس کمیٹی نے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے علماء کانام بھی استعمال کیا۔ سلطان کے خلاف استفتاء تیارکیاگیا جس میں اس پر درج ذیل جھوٹے الزامات عائد کیے گئے تھے:٭13اپریل کے باغیانہ مظاہرے کی منصوبہ بندی کرنا٭قرآن مجید کے نسخوں کو نذرِ آتش کرنا٭ فضول خرچی واسراف٭ظلم وستم اورخونریزی
حالانکہ یہ تمام الزامات بالکل بے بنیادتھے۔خلیفہ کے مخالفین کے پاس ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی کوئی ثبوت نہ تھا ۔بہرکیف خلیفہ کومعزول کرکے کنبے سمیت ایک قلعے میں نظر بند کردیا گیا۔ 11فروری 1918ء کو قیدہی کی حالت میںترکوں کے اس آخری بااختیار خلیفہ کی وفات ہوگئی جس نے نہایت ناسا زگار حالات میں بھی اُمت کی ناؤ پارلگانے کی پوری کوشش کی ۔
……
   یہ سب کچھ ہوا۔اوراس کے بعد۱۹۲۴ء میں مصطفی کمال پاشاکے ہاتھوں خلافت کی رسمی حیثیت بھی ختم کردی گئی ۔اسلامی شعائر کھرچ کھرچ کرمٹائے گئے۔مدرسے بند ہوگئے۔مساجد آثارِ قدیمہ بنادی گئیں۔ایسالگتاتھا کہ ترکی کااسلام سے کبھی کوئی تعلق رہاہی نہیں۔
 مگر ۱۰۸سال بعد اسی استنبول میں طیب اردگان کی حکومت ہے،جو عثمانی خلفاء کاعاشق ہے،جوملتِ اسلامیہ کادردآشنا ہے،جو قرآن مجید کو بڑی حلاوت اورقلبی لذت کے ساتھ پڑھتاہے۔
  ۱۰۸سال بعد ۱۵جولائی کواسی استنبول میں ایک بار پھر فوجی بغاوت ہوئی ۔مگر تاریخ ہر جگہ خود کونہیں دہراتی ۔کبھی تاریخ بدل بھی جاتی ہے۔ترک قوم جو ۱۹۰۸ء میں مغربی افکار کے نشے میں غرق ہوچکی تھی ،آج بیدارہے۔ اس بیداری کے پیچھے گزشتہ کئی عشروں کی محنت کارفرماہے۔ وہ محنت جوتہہ خانوں، خانقاہوں ،مسجدوں اورحجروں سے شرو ع کی گئی ،پھر اسکولوں ،اکیڈمیوں اورکیڈٹ کالجوں تک پہنچی۔جس نے ترک قوم کو نجم الدین اربکان اورطیب اردگان جیسے لیڈر دیے۔ 
  اس ترک قوم نے ۱۵جولائی کوثابت کردیا کہ وہ ماضی کی غلطیوں کااعادہ اب نہیں ہونے دی گی۔ فوج اسلام پسندوں کو روندنے کاشوق پورانہیں کرسکتی۔ترک نوجوان طیب اردگان کی کال پر گھروںسے نکل آئے۔وہ فوج کی گاڑیوں اورٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ استنبول کے چوراہوں پرشیخ سعدی کے اس قول کاعملی مشاہدہ ہورہاتھا کہ چڑیاں جمع ہوجائیں تو شیر کی کھال کھینچ سکتی ہیں۔
   واقعی باغیوں کی کھال اتر گئی ۔وردیاں پامال ہوگئیں۔غدارفوجیوں کی جو خاطر تواضع ہوئی وہ پوری دنیا نے میڈیاپردیکھی۔اس دن ہر طرف حمد کے ترانے تھے۔ پوری دنیا میں مسلمان شکرانے کے نوافل ادا کررہے تھے۔ دامن اشکہائے تشکرسے بھیگ رہے تھے کہ مدتوں بعد ایک عظیم فتح نصیب ہوئی تھی ۔ الحمدللہ ایک صدی کاسفر رائگاں نہیں گیا۔ ترکوںنے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ عالم اسلام کی قیادت کاخلاپرکرسکتے ہیں ۔انہوںنے ہمیں دکھادیاکہ کہنے اورکرکے دکھانے میں کیافرق ہے۔اگر چہ یہ سیکھنے میں انہیں ایک سوآٹھ سال لگ گئے مگر دیرآید درست آید۔ دیکھنایہ ہے کہ ہم کب کہنے سے کرنے کے مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter