Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

52 - 52
سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں
  موسمِ حج شروع ہوچکاہے۔ دنیابھر سے عازمینِ حج ارضِ حجاز پہنچ رہے ہیں۔ایک صدی پہلے تک حج کا سفر بڑادشوارتھا۔پرانے لوگ جنہوںنے حج کیا ،اپنے اسفارِ حج کے حالات اگر لکھ گئے نہ ہوتے توہمیں ان دشواریوں کااندازہ کرنابھی مشکل تھا۔
   بین الاقوامی سفر کا بڑاذریعہ بحری جہازتھے۔ برصغیر کے عازمینِ حج بمبئی یاکراچی پہنچتے ۔یہاں ہفتوں اپنی باری کاانتظار کرناپڑتا۔ پھر بحری جہازوں میں سوارہوتے۔ترکی،مصر اور افریقہ کے متعدد ممالک کے حجاج بحری سفر کرتے ۔نئے لوگوں کے لیے یہ جان جوکھوں کاکام تھا۔چکر اورقے جیسی شکایات اکثر حاجیوں خصوصاً خواتین کولاحق رہتی تھیں۔ جب سمندری طوفان آتا توجہازلہروں پر تنکے کی طرح اچھلتاتھا۔ بعض اوقات جہاز ڈوب بھی جاتے تھے۔  
    دنیا کے بہت سے ممالک سے سفرِ حج بری راستے سے ہوتاتھا، ماوراء النہر، خراسان،ایران ،عراق ، اورشام کے حجاج کرام بری راستہ ہی استعمال کرتے تھے۔ یہ بری قافلے اونٹوں،گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں پرمشتمل ہوتے تھے۔ مگر اونٹوں کے کارواں سب سے زیادہ چلتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اونٹ طویل سفر آسانی سے کرتاہے ۔اونٹ پرایک ساتھ دوافرادآسانی سے بیٹھ جاتے ہیں ۔نیز اس پر سواری کوزیادہ دھچکے نہیں لگتے۔ان کی رفتار وہ ہوتی تھی جسے عربی میں ’’ہمیس ‘‘ کہاجاتاہے،یعنی نازک خرامی۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حالتِ احرام میں اونٹ کی اس چال پر فرماتے تھے:
وہن یمشین بنا ہمیسا{یہ اونٹنیاں ہمیں نازک خرامی کے ساتھ لے جارہی ہیں}
   یہ کاروان بسا اوقات تین تین چارچارہزاراونٹوں پرمشتمل ہوتے تھے جن میں عازمینِ حج کی تعد اد بھی پانچ سے دس ہزارتک ہوتی تھی۔آج کل کی ٹریول کمپنیوں کی طرح کاروان بھی ایک قافلہ سالار کے تحت چلتے تھے۔ اکثروہی اونٹوں کامالک ہوتاتھا۔ کبھی وہ دوسرے سرمایہ کاروں کے اونٹ شامل کرلیتا تھا۔عازمینِ حج سے حجاز تک آنے جانے کے لیے باقاعدہ کرایہ طے ہوتاتھا۔متوسط قسم کے لوگ اونٹ کے کجاوے کی ایک سیٹ بک کراتے تھے ،جبکہ مال دارلوگ دونوں سیٹوں یعنی پورے اونٹ کی بکنگ کراتے تھے۔ اونٹوں کی قطاریں کشادہ راستوں پردورویہ اورتنگ راستوں پر یک رویہ چلتی تھیں۔قافلوں میںبہت سے غریب مگر ہمت والے لوگ پید ل بھی چلاکرتے تھے۔ ایک ملک سے چلنے والے قافلے حجاز میں جاکر اپنے سلطان کی طرف سے طے کردہ ’’امیرِ حج‘‘ کے تحت جمع ہوجاتے تھے۔حج کے پانچ ایام میں منیٰ ،عرفات اورمزدلفہ کی بھاگ دوڑ اسی امیرِ حج کے پرچم تلے ہوتی تھی۔ 
     ایک بڑے قافلے میں حاجیوں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں کانظام اس وقت بھی رائج تھا۔مگر عموماً یہ گروپ لوگ خود بناتے تھے۔ایک گاؤں ،ایک محلے یاایک مسجد کے لوگ اکھٹے چلتے تھے ۔ اونٹوں پران کی سیٹیں قریب قریب ہوتی تھیں۔روزانہ زیادہ سے زیادہ پچیس تیس کلومیٹر طے کیے جاتے تھے۔اتنے فاصلے پر کوئی نہ کوئی بستی اورسرائے ضرور ہوتی تھی۔ موسم حج میں سرائے والے بڑے پیمانے پر قافلوں کو ٹہرانے کاانتظا م کرتے تھے۔ سردیوں میں سفر صبح سے عصر تک اورگرمیوں میں عشاء سے فجر تک ہوتاتھا۔ راستے کے تمام ملکوں اور ریاستوں کی حکومتیں عازمینِ حج کے کھانے پینے اور پڑاؤ کا خیال کرتی تھی۔
    اس وقت بھی حجاز میں حاجیوں کے معلّم ہواکرتے تھے ۔مکہ معظمہ ،منیٰ ،عرفات اورمدینہ میں کس ملک کے حاجی کہاں ٹہریں گے ،آج کل کی طرح یہ بھی پہلے سے طے ہوتا تھا ۔کس ملک کے  حاجیوںنے کتنے دن مکہ میں اورکتنے دن مدینہ میں قیام کرناہے ۔یہ سب طے ہوتاتھا۔ اس وقت کی حکومتِ حجاز ،اپنے اہلکاروں،حج کے معلموں اورقافلہ سالاروں کی وساطت سے یہ سب انتظامات کراچکی ہوتی تھی۔ قافلہ جب مکہ پہنچتاتوکسی کوجگہ تلاش کرنے کی فکرنہیں ہوتی تھی۔معلم یااس کے نائبین قافلہ آتے ہی ،اسے گروپ وارتقسیم کے مطابق مختلف  مکانات اورسرائیوںمیں لے جاتے تھے۔ تاہم اس زمانے میں کھانے پینے کامسئلہ بڑا شدیدتھا۔ اکثر قافلوں کے ساتھ خوراک ورسد کے اونٹ الگ سے چلتے تھے ۔حجاز میں ٹہرنے کادورانیہ بھی کم ازکم تین چارماہ ہوتاتھا۔اس دوران یہی خوراک استعمال کی جاتی تھی۔ ہندوستان،شام ،مصر اوربغدادکے بہت سے نیک حکمران اورنواب حج کے موسم میں حاجیوں کی سہولت کے لیے اپنے طورپر بھی خوراک ورسد کاانتظام کرتے تھے۔
   خوراک سے کہیں زیادہ گھمبیر مسئلہ پانی کاتھا۔عرب کے صحرا میں پانی کم یاب تھا۔ سال میں تین چارماہ کے لیے جب لاکھوں غیرملکی لوگ آکر یہاں ٹہرتے تھے ،تو پینے کے پانی کے علاوہ وضو اورغسل کے لیے بھی اضافی پانی درکارہوتاتھا۔شروع کی ڈیڑھ صدی تک یہ مسئلہ بہت گھمبیر رہا۔’’ تشنگانِ حجاز‘‘ایک محاوربن گیاتھا۔ہارون الرشید کی بیگم ملکہ زبیدہ نے اس مسئلے کواس طرح حل کیاکہ خطیر سرمایہ لگاکر مکہ تک میٹھے پانی کی  ایک نہر جاری کی جس سے پانی کی مشکلات بڑی حدتک دورہوگئیں۔
    پھر بھی آج جیسی سہولتوں کاتواس وقت تصورہی نہیں تھا۔ اب سے چالیس پچاس سال پہلے حج کرنے والے حضرات بتاتے ہیں کہ رہائش گاہوں میں کوئی نلکانہیں ہوتاتھا۔مکہ اورمدینہ میں کہیں سڑکوں پر کہیں کہیں نل لگے ہوئے تھے۔ حاجیوں میں جو صحت مند ہوتے ،وہ ساتھیوں کے لیے ٹین بھر بھر کروہاں سے پانی لاتے ۔چوبیس گھنٹے میں اس پانی کو بہت ناپ تول کراستعمال کیاجاتاتھا۔
   عازمینِ حج!آپ  خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے آپ کو بڑی سہولت والے زمانے میں اس عبادت کا موقع دیا۔اس کاشکر یہ ہے کہ پوری یکسوئی ،دل جمعی اورخشوع وخضوع کے ساتھ وہاں مناسک سیکھنے اوراداکرنے میں وقت گزاراجائے۔فضول بات چیت اورگھومنے پھرنے میں ایک لمحہ بھی ضایع نہ ہونے پائے۔ایک بہت بڑی مصیبت اس دورمیں چل پڑی ہے کہ مسجدالحرام اورمسجدنبوی میں جسے دیکھیں ،وہ ویڈیوز اورتصاویر بنارہے ،سیلفیاں لے رہاہے۔اس حرکت میں کبھی یہ خیال کارفرما ہوتا ہے کہ ہم ہر لمحے کومحفو ظ اوریادگار بنارہے ہیں۔ حالانکہ یہ شیطانی خیال ہے۔ حقیقت میں یہ لمحات ضایع ہورہے ہوتے ہیں۔حج کامقصد بندگی سیکھناہے ،رب سے ناطہ جوڑناہے۔خشو ع وخضوع حاصل کرناہے۔روح کاتزکیہ کرناہے۔ اس کی جگہ ہم تصویروں اوروڈیوز بنانے میں مشغول رہیں توخشو ع وخضوع کاکیاسوال ۔روح کاتزکیہ بھلاکیا ہوگا۔اس کی بجائے ہمارانفس ہی پھلتا پھولتا رہے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کاشکر اداکرنے اورحج کے ہر لمحے کو قیمتی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter