حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ
حج کے مناسک مکمل ہوچکے ہیں ۔حجاجِ کرام اس سرزمین سے واپس لوٹ رہے ہیں جوکرّۂ ارض پر سب سے مقدس ہے۔کیا ہے یہ سرزمیں؟کالے پہاڑ…ان کے درمیان وسیع وعریض ریتیلی اورچٹیل وادیاں …دوردورتک سبزے کانام ونشان نہیں…کہیں کہیںآبادیاں…مگر بقولِ شاعر
یہاں نہ گھاس اُگتی ہے یہاں نہ پھول کھلتے ہیں
مگر اس سرزمیں سے آسماں بھی جھک کے ملتے ہیں
اس جگہ کویہ عزت فقط حرمین شریفین کے صدقے ملی ہے۔ حرم مدینہ ہمارے آقا ومولاصلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ہجرت وسکونت ،ایمان کامرکز اورپہلی اسلامی ریاست ہے۔ یہاں مسجدنبوی ہے،روضہ اطہر ہے اورگنبدِ خضراہے۔
حرم مکہ میں ہماراقبلہ ہے۔جس کی طرف رخ کرکے پنج وقتہ نمازاداکی جاتی ہے۔ اسی حرم میں مناسکِ حج اداکیے جاتے ہیں۔حاجی جب احرام باندھ کریہاں آتے ہیں تو بوڑھوں میں بھی نئی توانائی آجاتی ہے۔سبز روشنیوں کے درمیان جوان اورادھیڑ عمر ہی نہیں بوڑھے بھی بھاگتے دکھائی دیتے ہیں ، یہ سوچے بغیر کہ وہ کیسے لگتے ہوں گے ۔یہ عشق نہیں تواورکیا ہے
لوگ سمجھیں مجھے محروم ِ وقاروتمکیں
وہ نہ سمجھیں کہ میر ی بزم کہ قابل نہ رہا
عجیب بات یہ ہے کہ حاجیوں کی اکثریت ادھیڑ عمر بلکہ بوڑھے افرادپرمشتمل دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے اکثر متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔ ان کادینی دنیاوی علم بہت محدودہوتا ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف وہ اتنے طویل اورپرمشقت سفرکے لیے آمادہ ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ ترسارے مناسک خود اداکرتے ہیں، پیدل چل کر طویل فاصلے طے کرتے ہیں۔گھنٹوں قطارو ں میں کھڑے رہتے ہیں۔ نمازیںپابندی سے حرمین میں اداکرتے ہیں۔ تہجد کے لیے روزانہ بیدارہوتے ہیں ۔
پھرمناسک حج کی ادائیگی اورزیادہ محنت ومشقت کاکام ہے۔ حاجی۹ذی الحجہ کو احرام باندھے مکہ کے آرام دہ ہوٹل چھوڑکر منیٰ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ہر سمت تلبیہ کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں۔
لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک ،لاشریک لک
دنیامیں خیموں کاسب سے بڑاشہر آباد ہوجاتاہے۔ بیس پچیس لاکھ حاجی توخیموں میں ہوتے ہیں ہیں۔ان کے علاوہ بھی سات آٹھ لاکھ افرادوہ ہوتے ہیں جو سڑکوں کے کنارے ،فٹ پاتھوں پر ، خیموں کے درمیان گلیوں میں اورپہاڑیوں پر چادریں بچھائے ،تیز دھوپ سے بچنے کے لیے چھتریاں اور چھوٹے چھوٹے خیمے تانے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کامجاہدہ سب سے زیادہ ہے۔ان میں کروڑ پتی ،ارب پتی عرب حضرات بھی ہیں جو بیوی بچوں سمیت آتے ہیں اورفٹ پاتھوں پربیٹھ جاتے ہیں۔ ۹ ذی الحجہ کوحاجی بسوں میں ،ٹرین میں اورپیدل کشاں کشاں منیٰ سے عرفات کے وسیع میدان کی طرف لپکتے ہیں۔پھرغروب ِ آفتاب کے ساتھ حاجیوں کاسیلاب مزدلفہ روانہ ہوجاتاہے جہاں کا رش ہوش اڑادیتا ہے۔ کھوے سے کھواچھل رہاہوتاہے۔ راستے میں لوگوں کے بیٹھ جانے کی وجہ سے نقل وحرکت میں شدید دشواری ہوتی ہے۔خوب دھکے لگتے ہیں۔ بعض لوگ دب کربے ہوش ہوجاتے ہیں۔ نمازفجر کے کچھ دیر بعد لوگوں کاسیلاب ٹھاٹھیں مارتاہوا رمی کے لیے جمرات کی طرف نکل پڑتا ہے۔مرحلہ واررمی ،قربانی ،حلق اورطواف ِ زیارت کے مراحل اداہوجاتے ہیں ،جس کے بعد
احرام کھلجاتے ہیں۔ فریضۂ حج اداہوجاتاہے۔
اب منیٰ سے قافلے مکہ واپس آجاتے ہیں ،اورایک ترتیب سے ان کی اپنے اپنے ملکوں کوروانگی شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت الحمدللہ عازمینِ حج مناسک سے فارغ ہوکروطن واپس آرہے ہیں۔کراچی ، لاہوراوراسلام آباد کے ایرپورٹوں پر حجاج کرام کی اترنے والی پروازوں کے استقبال کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہورہے ہیں۔ حجاجِ کرام کے چہروں پر خوشی اوراطمینان ہے۔اللہ نے انہیں بہت بڑی سعادت نصیب کردی ہے۔ حج نے طبیعتوں کو صاف کردیاہے،جسم کو جفاکشی کاعادی بنادیاہے ۔ اللہ سے تعلق جڑ گیا ہے۔ گناہوں اورمنکرات کے ماحول سے طبعی نفرت عام ہوگئی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حجاجِ کرام اس شرف اوراس عزت کوملحوظ رکھتے ہوئے زندگی کے باقی ایام اللہ کی مکمل اطاعت، معاصی سے اجتناب،سنتوں کی پابندی اوراخلاقِ حسنہ کی پاس دار ی کے ساتھ گزاریں۔ پنج وقتہ نمازوں میں کبھی کوتاہی نہ ہونے دیں۔ چہر ے پر سنت کانور آنا حج کے قبول ہونے کی علامت ہے۔ زبان اورہاتھ سے کسی کوتکلیف نہ پہنچنے دینااس بات کی دلیل ہے کہ حاجی نے اپنے مقام کو پہچان لیاہے۔اس کے برعکس اگر حاجی ،حج کرکے بھی سابقہ زندگی کی طرح نمازیں ترک کرنے،سودکھانے، رشوت لینے ،جھوٹ بولنے،اوردوسرے گناہوں میں ملوث رہے تواس کامطلب ہے کہ اس نے اپنے حج سے کوئی اثر نہیں لیا۔
حاجی کوچاہیے کہ وہ اُمت کاایک فعال عنصر بن کردکھائے۔ مسلمانوں کی بقا،سربلندی،دین کی اشاعت وحفاظت ،ایمان وتقویٰ کی عملی تبیلغ اورقوم میں اتحادواتفاق کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔حاجی اللہ کاوفد ہیں ۔ رسول اللہ کے مہمان ہیں۔ ان کے اعزازواکرام کے طورپر ان کی دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔وہ ان دعاؤں کواپنی دینی ودنیوی ضرورتوں کے علاوہ اُمت کی حالت کے سدھرنے کے لیے استعمال کریں۔حاجی ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں ،بشرطیکہ وہ اپنے مقام کوپہچانیں۔ اگر ہرسال حج کرکے آنے والے لگ بھگ ایک لاکھ افراداپنی زندگیاں تبدیل کرکے انفرادی اوراجتماعی طورپر اسلام کے سپاہی بن جائیں توہمارے حالات بدلنے میں دیرنہیںلگے گی۔