کچھ تواحساس کریں
مجھے ایک مریض کی عیادت کے لیے سول ہسپتال جاناتھا۔ایک سی این جی رکشے کواشارہ کرکے روکا۔رکشے والابڑی تیزی میں تھا۔یکدم بریک لگائی اورپھرریورس ہوا۔ میںنے اسے غورسے دیکھا۔ عمر کوئی چالیس سال تھی۔دبلی پتلی جسامت ۔سردی کی وجہ سے اس نے چادراوڑھ رکھی تھی۔سرپرچترالی ٹوپی تھی ۔
’’امیر صاب !کہاں جاناہے۔‘‘پختون لہجے میں پوچھاگیا۔
’’ سول ہسپتال چلو گے۔‘‘میں نے ڈرائیور کاجائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’سول !نہیں امیر صاب ۔وہاں نہیں جاسکتا۔‘‘
اس نے نگاہیں مجھ سے ہٹاکر سڑک پر گاڑ لیں۔
’’کیوں!کیا اُدھر حالات خراب ہیں کیا۔کوئی ہنگامہ وغیرہ……‘‘
’’نہیں امیر صاب ،حالات ٹھیک ہیں ۔مگر آ پ کوئی دوسرارکشہ پکڑلو۔‘‘
ؔؔ’’یار خان بھائی !مجھے بہت دیرہوچکی ہے۔ ملاقات کاوقت ختم ہوجائے گا۔ضروری جاناہے۔‘‘
’’اچھا آپ چرچ سے آگے پیدل چلے جاؤگے۔‘‘
’’ہاں مگر …‘‘
ؔؔ’’بس میں آپ کووہاں چرچ تک لے جاکرجاسکتاہوں ۔باقی آپ کی مرضی۔ ‘‘
’’اچھاچلو ٹھیک ہے۔‘‘میں نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ یہ سوچ کر چرچ سے سول ہسپتال کاپیدل راستہ دوتین منٹ ہی توہے۔
رنچھوڑلائن پر ٹریفک جام ملا۔پانچ منٹ ،د س منٹ ،پھرپندرہ منٹ گزرگئے ۔سڑک کھل کرہی نہیں دے رہی تھی۔میں نے وقت گزاری کے لیے ڈرائیورسے گپ شپ شروع کردی۔اس کاتعلق پشاور سے تھا۔ بیس سال سے کراچی میں رکشاچلارہاتھا۔
میں نے وہ سوال کرہی دیاجو رکشے میں بیٹھنے سے اب تک مسلسل ذہن میں کلبلارہاتھا۔
’’یارخان بھائی !مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آپ سول تک کیوںنہیں جارہے ،جب کہ حالات بھی ٹھیک ہیں۔‘‘
’’نہیں امیر صاب !حالات آپ کے لیے ٹھیک ہیں ،میرے لیے حالات بہت خراب ہیں۔‘‘
’’کیامطلب ۔‘‘
’’امیر صاب !آپ سوچتے ہوںگے کہ یہ ڈرائیور پاگل ہے۔بات یہ ہے کہ جب بھی میں اس ہسپتال کودیکھتاہوں ناں ،میں واقعی پاگل ہوجاتاہوں۔‘‘
چند لمحے فضا میں خاموشی رہی ۔مجھے لگاکہ ابھی وہ کوئی بہت خطرناک انکشاف کرنے والاہے۔
’ؔ’امیر صاب ! آپ پڑھے لکھے لوگ ہو۔ ہمارے نصیب میں علم نہیں تھا۔ مگر ہم جوبات بولنے والاہے وہ پڑھے لکھے لوگوں کوسمجھ میں آناچاہیے۔ آپ لوگوں کواللہ نے اچھے حال میں رکھاہے ۔ہم نے تو بہت دھکے کھائے ہیں ۔ہمیں تو یہ سمجھ میں آیاہے کہ بہت بڑ ی تعلیم بھی ہومگر انسانیت نہ ہوتوایسے لوگوں سے جانور بہترہیں۔میں بیس سال سے رکشہ چلارہاہوں۔ہماری شادی جلدی ہوئی ۔مگر شادی کو پندرہ سال گزرگئے ۔ اولاد نہیں ہوئی۔ ہم نے اپنا ،اپنے گھروالوں کابہت علاج کرایا۔بہت حکیموں ڈاکٹروں کاچکر لگایا۔جتنی ہماری حیثیت تھی کوشش کی۔ہم غریب لوگ تومشکل سے اپنا گھر کا گزارا چلاتے ہیں ۔ بڑے ڈاکٹروں کامہنگاعلاج توہم کراہی نہیں سکتے۔پھر ہمیں کسی نے بتایا کہ ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہے ، بہت اچھاعلاج کرتاہے۔ ہم نے اس سے علاج بھی شروع کرایا اور بہت دعائیں کیں۔آخر اللہ نے دعاسن لی ۔ گھروالی امید سے ہوئی ۔ہم نے ڈیلیوری کے لیے ایک میٹرنٹی ہوم میں با ت کرلی ۔کیونکہ ہم کراچی میں اکیلے تھے،کوئی عزیز رشتہ داریہاںنہیں تھا۔کچھ دنوں بعد بیوی کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ۔جس لیڈی ڈاکٹر کے پاس اسے لے کرجاتاتھا،اس نے کہا کہ اس کاچیک اپ کراؤ۔چیک اپ کرایا توپتاچلاکہ اسے کالایرقان ہے۔ لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ اس حالت میں اس کی ڈیلیوری ہمارے ہاں نہیں ہوسکے گی ۔یہ بہت مشکل کیس ہے۔آپ اسے کسی بڑے ہسپتال لے جائیں۔ ہم غریب آدمی اورکہاں جاتے ۔ سول ہسپتال آئے ۔یہاں ایک بڑی لیڈی ڈاکٹر سے بات ہوگئی ۔اس نے دوائیں لکھ دیں۔میں ہر ہفتے بیوی کوچیک کرانے سول لے جاتا تھا۔ جب ڈیلیوری کاوقت ہواتو میں بیوی کولے کرسول ہسپتال آیا ،مگریہاں کیادیکھتاہوں کہ ڈاکٹروں نے ہڑتال کی ہوئی ہے۔بیوی کی حالت بہت خراب تھی ،میں اسے لے کرکبھی اِدھر بھاگتاتھاکبھی ادھر۔ ڈاکٹروں کی نرسوں کی بہت منت سماجت کی۔مگر سب کی بات ایک ہی تھی کہ ہم ہڑتال پر ہیں۔اورپھر امیر صاب وہیں سول ہسپتال کے سامنے بیوی بھی مرگئی اوربچہ بھی۔
امیر صاب!میرے سامنے میراخاندان ختم ہوگیا۔میں غم اورغصے سے پاگل ہوگیا۔اگلے دن میں نے پستول لیا اورسول ہسپتال پہنچ گیا۔ہم پٹھان خون کابدلہ خون سے لیتے ہیں۔ سوچا کہ دوچارڈاکٹروں کومارکر خود بھی پھانسی پر چڑھ جاؤں گا۔مگر جب یہاں آکر چھوٹے چھوٹے بچوں اورعورتوں کودیکھا توسوچاکہ ان کاکیاقصور ہے ۔شاید جس ڈاکٹر کومیں ماروں گا،وہ ان میں سے کسی کاعلاج کررہا ہو۔ علاج نہ ہونے سے کوئی مریض کوئی عورت کوئی بچہ مرگیا تو اس کی ذمہ داری میرے اوپر ہوگی۔میں واپس آگیا۔اس واقعے کو پانچ سال گزرگئے ہیں مگر آج بھی اس کا درد تازہ ہے۔میںنے اس کے بعدسے ابھی تک شادی نہیں کی ہے۔ سول ہسپتال کے سامنے سے جب بھی گزرتاتھا،طبیعت خراب ہوجاتی تھی۔جذبات پر قابوپانے کے لیے میں نے ادھر سے گزرناہی چھوڑدیاہے۔ اسی لیے آپ کو بھی وہاں تک نہیں جاسکتاہوں۔‘‘
اس کی دکھ بھری داستان سن کر میں ساکت وجامد تھا،مجھے یہ بھی خیال نہیں رہاکہ ٹریفک جام کھل چکاہے اورہم چرچ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ میں نے کرایہ اس کے ہاتھ پر رکھا اورہسپتال کی طرف قدم بڑھادیے۔ اس وقت بھی میںیہی سوچ رہاتھااورآج پشاور میں ڈاکٹر کی ہڑتال کی خبر پڑھ کربھی یہی سوچ رہاہوں کہ آخر ہم اپنی محرومی کاانتقام بے گناہوں سے کیوں لیتے ہیں۔ یہ بات ایک جاہل رکشہ ڈائیور کوسمجھ آگئی مگر ’’مقدس پیشے ‘‘ کااعزازرکھنے والوں کویہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی۔کیا ضمیر بالکل ہی مردہ ہوچکاہے ۔کیا ان انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں جو ہمارے ہسپتال بند ہوجانے سے ضایع ہواکرتی ہیں۔ اوراگرایک’’ مسیحا‘‘ ایسا سوچنے میں معذور ہے تو پھر اس کے ردعمل میں ایساہی کچھ کرنے والے اس سے لاکھ درجہ زیادہ معذورہوں گے ۔کیونکہ ان کے پاس کوئی تعلیمی سند ہے نہ ڈپلومہ ۔ان کا استادصرف وقت ہے ۔ان کی ڈگری فقط تجربہ ہے۔آپ انہیں جودیں گے ،وہی ان سے وصول ہوگا۔ جان کے تحفظ کے بدلے جان ملے گی جبکہ جان کنی کے جواب میں شدت پسندی اوردہشت گردی ہی جنم لے گی۔
٭٭
15-02-2016