عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن
خوشی اورمسرت زندگی کالازمی حصہ ہیں۔زندگی میں کبھی دکھ ملتاہے ،کبھی سکھ۔نہ خوشیاں سدارہتی ہیں نہ برے ایام دائمی ہوتے ہیں۔حق تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’پس بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘{الانشراح}
جب انسان کو کوئی نعمت، کوئی کامیابی اورکوئی راحت نصیب ہوتی ہے تووہ مسروروشادماں ہوتاہے۔ان فطری جذبات وکیفیات کااظہار بھی کرتاہے۔مگر چونکہ نفس وشیطان اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں،اس لیے یہ خطرہ بدستور رہتاہے کہ ا س کااظہارِ مسرت کہیں دوسروں کے لیے زحمت نہ بن جائے ،وہ سرکشی، بغاوت اورنافرمانی کے جذبات میں نہ بہہ جائے۔ جو لوگ وحی کی روشنی سے محروم ہیں ،ا ن کے ہاں مسرت کے اظہار کے لیے جشن منائے جاتے ہیں، رنگ رلیاں ہوتی ہیں ،مردوزن کابے محابااختلاط ہوتاہے،آتش بازی اورچراغاں پر لاکھوں کروڑوں روپے بے دریغ پھونک دیے جاتے ہیں۔ ایک گھر کی مسرت دس گھروں کے لیے کلفت بن جاتی ہے۔امراء خوشی میںجو عیاشیاں کرتے ہیں،انہیں دیکھ کر غریبوں اورمفلسوں کے دکھ اوراحساسِ محرومی میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
اللہ خالقِ کائنات ہے اوراسے اپنی مخلوق میں کمزوروں اورمسکینوں کاسب سے زیادہ خیال ہے۔اس نے ہمیں ہر قسم کی افراط وتفریط سے پاک ضابطہ حیات نصیب کیاہے۔ اس پروردگار نے اس اُمت کوامتِ وسط بنایاہے ۔اس کے حکم کے مطابق نبیٔ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے قول وفعل سے زندگی کے ہر گوشے اورہرشعبے کاروشن نمونہ بخش دیاہے جسے اسوۂ حسنہ کہاجاتاہے۔اس اسوۂ حسنہ میں راحت کانمونہ بھی ہے اورغم کا بھی ۔ہم خوشی میں کیاکریں اورغم کاسامناکیسے کریں،یہ سب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کرکے دکھادیا۔
اس کے ساتھ ساتھ حق تعالیٰ نے یہ بھی ملحوظ رکھاکہ جس طرح دنیا کی دیگر قومیں مخصوص دنوںمیں اجتماعی طورپراظہارِ مسرت کرتی ہیں،اسی طرح اُمت محمدیہ کو بھی اجتماعی طورپر خوشی منانے کے کچھ ایام دیے جائیں ،تاکہ ذہن وجسم کی فطری ضروریات کے ساتھ ،اجتماعی زندگی کے تقاضے بھی احسن طریقے سے پورے ہوسکیں۔
چنانچہ ہمیں دوعیدیںعطاہوئی۔ عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ۔عیدالفطر رمضان کے ختم ہونے اورشوال کاچانددکھائی دینے پر منائی جاتی ہے اورعیدالاضحٰی دس ذی الحجہ کو۔ عیدالفطر کااپنا مزاہے۔ عیدالاضحیٰ کی اپنی خصوصیات ہیں۔ عیدالفطر سے ایک دودن پہلے تک کسی کوپتانہیں ہوتاکہ عید یقینی طورپر کب ہے۔چاند ۲۹کاہوگایا۳۰ کا۔اس ابہام میں بھی ایک عجیب لطف ہے ،ہر شخص ایک دودن پہلے اندازہ لگارہاہوتاہے کہ عید کب ہے۔یقینی علم چاند رات کوہی ہوتاہے۔
عیدالاضحی میں دس دن پہلے پتاچل جاتاہے ۔لوگوں کوبخوبی وقت مل جاتاہے کہ وہ قربانی کے جانور تلاش کریں،پسند کریں اورخریدکران کی دیکھ بھال کریں۔اس طرح جانور سے دل مانوس بھی ہوجاتاہے ،جو شریعت میں پسندیدہ اورقربانی کے اجرمیں اضافے کاباعث ہوتاہے۔
نمازِ عید ،عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ میں یکساں طورپرواجب ہے۔طریقہ بھی ایک ہی ہے۔ لوگ عیدگاہوں میں جمع ہوکر اللہ کی نعمتوں کاشکر اداکرتے ہوئے دورکعت نمازاداکرتے ہیں۔مسلمانوں کی اجتماعیت کے عظیم الشان مظاہرے اس طرح ہوتے ہیں کہ لاکھوں بندے بیک وقت معبودِ حقیقی کے سامنے سربسجود دکھائی دیتے ہیں۔
مگرعیدالاضحی کی خصوصیت اس کی خاص عبادت ہے یعنی قربانی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ قرآن مجید اوراحادیث میں تفصیل سے مذکورہے۔حاصل یہ ہے کہ پیغمبر نے اللہ کے حکم سے بیٹے کے گلے پر چھری چلادی مگر اللہ نے عین وقت پربیٹے کی جگہ ایک دنبہ کودے دی۔پھر تاقیامت یہ سنتِ ابراہیمی جاری ہوگئی ۔ اس اُمت میں اس قربانی کوصاحبِ حیثیت لوگوں پر واجب اورعام لوگوں کے لیے نفل قراردیاگیا۔
جیساکہ میں نے عرض کیاکہ خالقِ کائنات اپنے مخلوق میں مساکین اورکمزوروں پر سب سے زیادہ مہربان ہے۔اس مہربانی کااظہار عیدین میں بھی ہوتاہے۔ عیدالفطر میں صدقہ فطر واجب کردیاگیا تاکہ غریب وفقیر لوگ بھی عید مناسکیں۔ عیدالاضحیٰ میں قربانی کی کھالوں کو صدقہ کرنے کاحکم دیاگیا،اسی طرح قربانی کے گوشت کو بھی کلی یاجزوی طورپر مستحقین میں تقسیم کرنا پسندیدہ قراردیاگیا۔
ہماری خوش قسمتی ہوگی کہ اگر ہماری قربانیاں زیادہ سے زیادہ غریبوں کے کام آئیں۔ وہ لوگ جنہیں مہنگائی کی وجہ سے سال بھر گوشت کھاناتودرکنارچکھنا تک نصیب نہیں ہوتا، اللہ کی ضیافت سے محظوظ ہوں اوراس کاذریعہ ہم بن جائیں۔دینی مدارس جو اسلام کے قلعے اوردین کی حفاظت واشاعت کاسب سے بڑاذریعہ ہیں،اپنے بجٹ کاایک بڑاحصہ قربانی کی کھالوں سے ہی پورا کرتے ہیں۔ یہ بھی چرم قربانی کے بہترین حق دارہیں۔
کوشش کریں کہ جہاں ہم قربانی کرکے خود اللہ کی مہمانی سے بہرہ ورہوتے ہیں،وہاں دوسرے بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں ۔اللہ تعالیٰ تمام عالم اسلام کے لیے عیدالاضحیٰ کو بے حدمبارک کرے اوراس کی حقیقی مسرتوں میں ہم سب کواس طرح باہم شریک رکھے کہ ہم صحیح معنوں میں ایک اُمت دکھائی دیں۔