Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

40 - 52
پاکستان میں راؔ کی مداخلت 
   بلوچستان میں را کے حاضرسروس آفیسر’ کل بھوشن یادیو ‘کی گرفتاری نے پاک بھارت تعلقات میں زلزلے کی کیفیت کردی ہے۔ را کے اس ایجنٹ نے اعتراف کیا ہے کہ اس کااصل ہدف پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کوناکام بناناتھا۔اس سلسلے میں وہ دو سمتوں میں کام کررہاتھا۔ ایک  بلوچستان کے لیڈروں کواپناہم خیال بنانا۔دوسرے کراچی میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ شروع کرانا۔اس مقصد کے لیے اس نے وطن دشمن عناصر میں بھاری رقم تقسیم کی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو تقویت دینا،دہشت گردوں کی تربیت کرنا اورتخریب کارانہ کارروائیوں کی نگرانی کرنا بھی اس کے ذمے تھا۔بھارتی حکومت نے کل بھوشن یادیو کوافغانستان کے ایک قونصل خانے میں تعینات کررکھاتھا ۔ یاد رہے کہ بھار ت نے افغانستان میں پندرہ قونصل خانے بنا رکھے ہیں جو سب کے سب پاکستانی سرحد کے قریب ہیں۔ پاکستانی ذرائع کاکہنا ہے کہ یہ سب درحقیقت پاکستان کے خلاف تخریب کاری اوردہشت گردی کے مراکز ہیں۔
 پاکستان میں راکے کسی ایجنٹ کی یہ پہلی گرفتاری نہیں بلکہ اس سے پہلے کشمیر سنگھ ،سربجیت سنگھ اورسرجیت سنگھ جیسے متعدد بھارتی جاسوسوں کو گرفتارکیاجاچکاہے۔ان میں سے کچھ کو سزائیں ملیں ۔ کچھ کوصدرِ پاکستان کی طرف سے معافی دی گئی۔ کچھ کوایک مدت تک سزادینے کے بعد  باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے بھارت واپس بھیج دیاگیا۔پاکستانی عدالتوں میں ان سب نے راسے تعلق سے انکار کیا۔بھارتی حکومت بھی یہی بیان داغتی رہی مگر جو بھی ملزم واپس بھارت گیااس نے فخر کے ساتھ راکاایجنٹ ہونے کااعتراف کیا۔یہ تمام بھارتی ایجنٹ پاکستانی شہریت کے حامل یا سکھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔مگر کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کامعاملہ ان سب سے الگ ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارا یساہواہے کہ ایک حاضر سروس آفیسر رینک کاراؔ ایجنٹ گرفتار ہواہے جو  پاکستانی شہریت رکھتاہے نہ سکھ برادری سے اس کاکوئی تعلق ہے۔وہ ممبئی کاشہری ہے۔ وہ بھارتی نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر تعینات تھا مگراس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور راؔ کے لیے کام کرنے لگا۔ یادیو ؔ کی اس مہم کے لیے مبینہ طورپر ایران اورافغانستان کی زمین استعمال ہورہی تھی۔یادیو نے ایک تاجر کابھیس بدلااور ایران کی بندرگاہوںپر مال لانے اورلے جانے کاسلسلہ شروع کیا۔ایران میں اس کاتعارف ایک مال بردار بحری جہا زکے مالک اورتاجرکے طورپر تھا۔ اس طرح اس نے ایران میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرلیااورایران ہی کے راستے افغانستان آنے جانے لگا۔ ایران کی یہ زمین مبینہ طورپر وہاں کی حکومت کی مرضی سے پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی تھی۔اسی طرح افغان حکومت بھی یادیوسے پوری طرح تعاون کرتی رہی۔ اسے قندھار قونصلیٹ میں بطورِ ملازم تعینات کیاگیاتھااوراسی بہانے اس کاوہاں آناجانا معمول کی بات تھی۔
 یادیوکی گرفتاری نے بہت سے معاملات پرچھائی گرد وغبار کی دبیز تہہ دورکردی ہے۔ سیکولر طبقہ ایک مدت سے یہ پروپگینڈ ا کررہاہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ذمہ داری دینی مدارس اورعلماء پر ہے۔ اس کے جواب میں اہلِ فکر ونظر یہ کہتے آرہے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی ،تخریب کاری اور علیحدگی پسندی کی تمام تحریکات کے پیچھے اصل ہاتھ راؔکا ہے۔علمائے کرام ، مدارسِ دینیہ اورمذہبی جماعتوں کااس دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ حضرات حب الوطنی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ انہوںنے ملک دشمن سرگرمیوں اورسماج دشمن عناصر کی ہمیشہ کھلے لفظوں میں مذمت کی ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ بعض ایسے افراد بھی  تخریب کارانہ وارداتوں میں ملوث نکل آتے ہیں جن کابیک گراؤنڈ مذہبی ہو۔ مگراس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ ملک کی دینی قیادت ان کی سرپرست اورمذہبی طبقہ ان کا حامی ہے۔بلکہ ایسے لوگوں کو مختلف حوالوں سے مشتعل کرکے ریاست کے خلاف کھڑاکرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہوتا ۔را کے ایجنٹ ایسے ہی لوگوں کواستعمال کرتے آئے ہیں۔ہمارے علماء اوربعض جرأت مند صحافی اس طرف بھی اشارہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ،خصوصاً علماء کے قتل اوردینی مدارس ومساجد پر حملوں میں راؔ اورایرانی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ مگر حکومت نے کبھی اس پر سنجیدگی سے غورنہیں کیا۔اسی طرح میڈیا بھی اسے معاملے کودبادیتاہے ۔ جس کی وجہ اس کے سواکچھ نہیں کہ میڈیااورحکومتی حلقوں میںایک لابی کا غیرمعمولی اثر ورسوخ ہے۔ 
  مگر یہاں سوال یہ ہے کہ جس شخص نے پاکستانی شہریت حاصل کی ہے اوروہ اسی سرزمین کواپنا وطن مانتاہے، پھر چاہے وہ کوئی صحافی ہویا اعلیٰ افسر،سیاست دان ہویاسپہ سالار…اسے کس نے حق دیاہے کہ وہ وطن کی بقاو سلامتی پر ہمسایہ ملک کی ساکھ بچانے کو ترجیح دے۔ ہم کبھی بھی کسی پڑوسی ملک سے بلاوجہ بگاڑ مول لینے کے  حامی نہیں ۔ وطنِ عزیز کے حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے کہ  کوئی نئی محاذ آرائی مول لی جائے ۔مگرکل بھوشن یادیو جیسے ثبو ت اورحقائق خو د چیخ چیخ کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کررہے ہوں توایسے میں حقائق سے آنکھیں موند لینا بھی خودکشی کے مترادف ہے۔
   ایرانی صدر حسن روحانی کی پاکستان آمد اورباہمی تعلقات کے باب میں کئی معاہدوں پر دستخط یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ اس کے ساتھ جنرل راحیل مشرف کاوہ بیان بھی حقیقت پسندی پر مبنی ہے جس میں انہوںنے ایرانی حکومت کو کہاہے کہ وہ بھارت کوپاکستان میں تخریب کاری سے باز رہنے کاکہے۔جنرل راحیل شریف کے اس پیغام میں خود ایرانی حکومت کے لیے جو تنبیہ ہے ،وہ اہلِ خرد سے مخفی نہیں ۔ 
  اس وقت پاکستان، بھارت،ایران اورافغانستان خطے کے چاراہم ممالک ہیں۔ تین ملک مسلمان ہیں اورایک غیرمسلم ۔مگر مذہبی اختلافات سے قطعِ نظر یہ چاروں دنیا کی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔یہاں کے حالات پوری دنیا پر اثر اندازہوتے ہیں۔مغربی دنیا یہاں کے سیاسی ومعاشی اتار چڑھاؤ کو غیرمعمولی اہمیت دیتی ہے۔ ان چاروں ملکوں کی قیادت کو مذہبی اختلافات کے دائرے سے بالاترہوکراورماضی کی تلخیوں کوفراموش کرکے ،اب امن وآتشی ،اقتصادی ترقی اوربین الاقوامی سیاست ومعیشت میں ایک بلند مقام حاصل کرنے کے لیے مشترکہ پیش قدمی کاسوچناچاہیے۔ بجائے اس کے کہ بھارت پاکستان میں اقتصادی راہ داری کو ناکام بنانے کے لیے سرگرداں ہو اورایران و افغانستان کی سرزمین اپنے پڑوسی مسلم ملک کے خلاف استعمال ہو،کیا ہی خوب ہوگاکہ یہ منفی اہداف تبدیل کردیے جائیں ۔ان کی جگہ مثبت اہداف کواپناکرمغربی طاقتوں کے اس گیم  سے نکلنے کوشش کی جائے جس کی زد میں آکر ایشیا ایک مدت سے زبوں حال ہے۔
 ٭٭٭
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter