حلب کاالمیہ
شام کے شمالی شہر حلب میںا نسانیت سسک رہی ہے۔ لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیںملبے کاڈھیر بن چکی ہیں۔فاسفورس بموں سمیت نہایت مہلک کیمیائی ہتھیاروں نے شہر میں زندگی کو موت سے بدتر بنادیاہے۔بشارالاسد کی درندہ صفت افواج ،روسی فورسز اورایران کے منظم کردہ جنگجوؤں نے اس شہر میں مسلمانوں کاایساقتلِ عام کیا ہے کہ سقوطِ بغداد کا جیتاجاگتا منظر سامنے آگیا ہے۔
۱۴۲۲ سال پہلے (۱۶ھ) میں اسی شہر کاایک تاریخی محاصرہ ہواتھا۔اس وقت یہاں کی مقامی آبادی نصرانی تھی ۔ محاصرہ کرنے والے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سپہ سالارِ اعلیٰ امین الامت ابوعبیدہ بن الجرح رضی اللہ عنہ تھے ۔یہ دوالگ الگ قوموں کی جنگ تھی ۔جن کادین ،مذہب ،ثقافت ، تمدن ،زبان،رنگ ونسل سب الگ تھے۔مگر محاصرہ کرنے والوںکے اخلاق، دوست دشمن سب کے ساتھ مثالی تھے ۔شہروالوں کے ساتھ مذاکرات ہوئے ۔ نہایت امن وامان کے ساتھ یہ شہرمسلمانوں کے پاس آگیا۔مقامی لوگوں کاایک تنکا تک ضایع نہ ہوا۔مسلمانوں کے ان اخلاق کایہ اثر تھاکہ نصف صدی گزرنے سے پہلے یہ پوراخطہ مسلمان ہوچکاتھا۔اسی حلب کے لوگ اب شمال کی ہر مہم میں اسلام کاہراول دستہ تھے۔
چوتھی صدی ہجری میں جب دمستق رومی نے عالم اسلام کے شما ل پردھاوابولا تو حلب کے شمشیر زن امیر سیف الدولہ نے دفاع کے لیے زبردست تیاریاں کیں۔حلب کے نوجوان فوجی مراکز میں شمشیریں چمکاتے اورنیزہ بازی کرتے جنہیں دیکھ کر متنبی شاعر کہہ اٹھتا:
لہذا لیوم بعد غد اریج ……ونار فی العدو لہا لجیج
(آج کے اس دن کی مہک کل پھیلے گی…دشمن کوبھڑکنے والی آگ لگ کررہے گی ۔)
اورایساہی ہوا۔ دمستق کے سپاہی میدانِ جنگ میں سب کچھ چھوڑکربھاگے اورحلب کے سپاہی دوردورتک ان کاتعاقب کرتے رہے۔متنبی کوکہنا پڑا:
سرایاک تتری والدمستق ہارب…واصحابہ قتلیٰ واموالہ نہبیٰ
(تمہارے لشکر تعاقب میں ہیں اوردمستق بھاگ نکلاہے۔ اس کے ساتھی قتل ہورہے ہیں اوراس کے اموال لوٹے جارہے ہیں۔)
اوریہی حلب پھر سلطان نورالدین زنگی کاپایۂ تخت بنا۔اوراسی حلب کے باشندے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سپاہی بن کرنصرانیوں کے خلاف جہادکے لیے نکلتے رہے ۔یہی وہ شہر تھا جسے سلطان ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر نے اپنے لیے پسند کیااورتیسری صلیبی جنگ میں اسے مرکز بناکر شمال سے آنے والی صلیبی افواج کاوہ حشرکیا کہ اڑھائی لاکھ میں سے صرف گیارہ ہزارزندہ بچ کرنکل سکے۔
اس شہر میں بڑے بڑے محدثین ،ائمہ اورفقہاء نے جنم لیا اوراس کی خاک میں دفن ہوکراسے ستاروں کے لیے قابلِ رشک بنا گئے ۔بابِ انطاکیہ کے پاس حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کی تعمیرکردہ مسجدجامع الشعیبی آج بھی ان جبینوں کے لمس کویاد کرتی ہے جنہیں قرآن مجیدکی بلاغت نے’’ سیماہم فی وجوہہم من اثر السجود ‘‘سے تعبیر کیا تھا۔
مگر آج ابوعبیدہ اورخالدبن الولید رضی اللہ عنہما کی یہ امانت بھیڑیوں کے رحم وکرم پر ہے۔شام میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کی آگ جسے بھڑکانے میں روس،امریکا،ایران اوراسرائیل سمیت کئی ہاتھ ملوث ہیں،شمالی شام کوبری طرح جھلسارہی ہے۔کئی ماہ سے حلب ہوائی حملوں کی زدمیں تھا۔ جامع الشعیبی سمیت کئی مساجد،کئی ہسپتال،اسکول اوررہائشی عمارتیں بار بار بمباری کانشانہ چکی تھیں
گزشتہ دنوں جب روسی افواج اورایران کے حمایت یافتہ گروپوںکے تعاون سے بشارالاسد کی فوجوںنے حلب کی طرف پیش قدمی شروع کی تو اس کے ساتھ ہی یہ واضح ہوگیا تھاکہ وہاں لاکھوں انسانی جانوں کوشدید خطرہ لاحق ہونے کوہے۔ کیونکہ یہ وہ طاقتیں ہیں جو عام حالات میں بھی اخلاقیات کوبری طرح پامال کرتی رہتی ہیں چہ جائے کہ جنگ کی حالت میں ان سے کسی حدمیں رہنے کی امید کی جاسکے۔
یہی ہوا۔گزشتہ چند دنوں میں حلب پر ایسی بے رحمانہ بم باری کی گئی کہ بڑی بڑی بلڈنگیں زمین کے ساتھ برابر ہوگئیں۔ ہزاروں انسان دب کر ،جل کر ،بھوک ،پیاس ،زخموں اوربیماریوں سے جاں بحق ہوگئے۔ عالمی میڈیا نہایت شرمناک کردارکامرتکب ہوتے ہوئے اصل نقصانات کو چھپارہاہے۔ بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر جانب داری کی انتہا کرتے ہوئے حلب میں بشار کی فوجوں کے داخلے پر چند لوگوں کو ہاتھ اٹھاکرمسکرانے کی فوٹولگاکر یہ سرخی جمائی ہے کہ حلب کے لوگ بشار کی فوج کی آمد پر خوشیاں منار ہے ہیں۔کیا ایسی کوئی فوجی کارروائی لندن یاواشنگٹن میں ہو تی اورپھر دوچار مسخروں کی تصاویر لگا کر کہا جاتا کہ لوگ خوشیاں منارہے ہیںتو کیا اسے صحافتی اقدار کی پابندی ماناجاتا؟
حلب میں انسانی جانوں کے ضیا ع کوروکنے کے لیے مسلم ممالک کوبلاتاخیر میدان میں آناہوگا۔ مہاجرین کاریلا اب شمال کارخ کرے گا۔دسمبر کی سخت سردی قیامت برپاکررہی ہے۔ترکی کی جنوبی سرحدں پر برف باری شروع ہوچکی ہے۔ بحیرۂ روم کی تیز ہوائیں ان دنوںمیں خیموں تک کو اکھاڑ کر پھینک دیتی ہیں۔ ایسے طوفانی موسم میں ان لاکھوں مسلمانوں کو محفوظ کیمپ مہیا کرنا وقت کی پہلی اور فوری ضرور ت ہے۔ ترکی کااس مسئلے پر سنجیدہ ہونا تولازمی ہے کیونکہ یہ علاقہ اس کی سرحدوں کے ساتھ ہے اوروہ اس کے ہر سانحے سے اسی طرح متاثر ہوتاہے جیسے پاکستان کشمیر کے حالات سے۔مگر دوسرے اسلامی ممالک کوفوری طورپر ترکی کے ساتھ مل کراس مسئلے کوحل کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرنااورپھر اس مسئلے کوبیک آواز اقوام متحدہ میں اٹھاناہوگا۔ مہاجرین کی آبادکاری کوہر چیز پر ترجیح دی جائے ۔ اگلے مرحلے میں روس اورایران سمیت ہر بیرونی طاقت کی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کیاجائے ۔شام کے عوام کواپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کاریفرنڈم یاآزادانہ انتخابات کا حق ملنا چاہیے۔ اس کے بغیر شام میں امن قائم ہوسکتا ہے نہ باقی دنیا خطرات سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔