Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

24 - 52
اگرتودل سے چاہے
  عزمِ مصصم اورنیک نیتی ہو توکیا نہیں ہوسکتا۔ہر خوبی ،ہر خیر ،ہر نیکی اورہراچھی تبدیلی کے پیچھے یہ دوبنیادی عناصر کارفرماہوتے ہیں۔اگر ہم اچھا کرناچاہیں اورخلوصِ دل سے چاہیں تواچھے کام ہم سے ہونے لگتے ہیں۔مگر عزم مصمم بھی شرط ہے۔ یہ نہیں کہ ایک بھلائی کاارادہ کیاجائے مگر اس میں کوئی رکاوٹ دیکھی تو مایوس ہوکر سفرِ عزیمت فسخ کردیاجائے۔ ایسی کوششیں ہمیشہ ناکام ہوتی ہیں ۔ کمزورارادہ چاہے کتنا ہی خوبصورت ہواورقابلِ ستائش ہو،ایک حسرتِ نایافت بن کرعمر بھر انسان کوڈستارہتاہے۔ایسے ارادے بنجر کھیت کوسرسبزنہیں کرسکتے۔ایسی کوشش جس میں عزیمت ،استقلال اورتسلسل نہ ہو،خود کے ساتھ ایک مذ اق ہے۔اوراگر اس کوشش کوانسانی بھلائی ،قومی خدمت اورعوام پروری کے عنوان سے شروع کیاگیاہوتویہ ملک وقوم ،عوام اورانسانیت کے ساتھ ایک فریب ہے۔
   ہمارے صاحبانِ اقتداراورسیاست دانوں(بیوروکریسی اورڈیموکریسی)میں بڑی تعدادایسی ہے کہ حکومت و سیاست انہیں ورثے میں ملی ہے۔ اس حکومت وسیاست کامعنیٰ انسانوں کی خدمت کرنانہیں ،ان سے خدمت لیناہے۔ اللہ کی زمین سے حاصل شدہ پیداوار اورآمدن کولوگوںکی فلاح پر خرچ کرنامقصودنہیں بلکہ لوگوں کی چمڑی ادھیڑ کرایک ایک دمڑی نکالناہے۔ہماری تمام ذلتوں،رسوائیوں ،ناکامیوں اورفضیحتوں کے پیچھے  برسرِ اقتدارطبقے کے ایسے اونچے لوگ ذمہ دارہیں۔ان کابس چلے توملک کی مٹی سات تہوں تک کھود کھود کر فروخت کردیں ،نہ رہے بانس نہ رہے بانسری۔
    تاہم اسی سرزمین پر،اسی نظام میں ایسے لوگ بھی ہیں ،جو ملک وقوم کے لیے مخلص ہیں۔ جو قدیم روایات کانمونہ اوروضع دارہیں۔جن کے ہاتھ کرپشن سے پاک ہیں ،جو قانون کی بالادستی چاہتے ہیں ۔ جورشوت لیتے ہیں نہ دیتے ہیں۔کوئی سفارش  قبول نہیں کرتے۔عزل ونصب میرٹ کرتے ہیں۔سسٹم اورقوانین کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ان میں ایک تعدادخواہ قلیل ہی سہی،ایسے لوگوں کی ہے جو مذکورہ خوبیوں کے ساتھ صوم وصلوٰۃ کی پابند،متشرع و دین داربھی ہے۔ اگر ملک میں ہزاربرائیوں کے ساتھ کچھ ٹھیک بھی ہورہاہے توانہی لوگوں کی وجہ سے ۔یہ لوگ ملک کاقیمتی سرمایہ ہیں اوراگر کوئی بھی حکمران ایسے لوگوں کی صلاحیتوں سے واقعی فائدہ اٹھائے تواب بھی ملک کے حالات بدل سکتے ہیں۔
  میں یہ ماننے کے لیے تیارنہیںہوں کہ ہمارے مسائل کاکوئی حل نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حل جاننے والے بڑے بڑے دماغ ہمارے پاس موجودہیں۔ مگر بالادست طبقہ سنجیدگی سے مسائل حل کرنا چاہتا ہی نہیں۔اس کی ایک چھوٹی سی مثال سندھ کے جاگیر داروں کی ہے ۔سندھ کے دیہاتوں میں آج بھی جاکردیکھ لیں توسینکڑوں مربع میل میں ایک بھی اسکول ڈھنگ کانہیں ملے گا۔ عمارتیں تباہ وشکستہ،بجلی پانی کاکوئی بندوبست نہیں،صفائی کاکوئی انتظام نہیں ۔چند طلبہ اورایک دواستاد رسم نبھانے کے لیے کبھی کبھار آجاتے ہیں ورنہ ہفتوں یہاں آدم دکھائی دیتاہے نہ آدم زاد۔بھوت پریت کے سواکوئی مخلوق یہاں کارخ نہیں کرتی۔ یہ اسکول ان گوٹھوں میں ہیں جہاں کے وڈیروں اورجاگیرداروں کی کوٹھیاںنیویارک اور لندن میں بسنے والے  ملٹی نیشنل کمپنیز کے مالکان کی رہائش گاہوں سے  اعلیٰ ہیں۔ان کے لیے پینے کاپانی پیرس سے آتاہے اورآبِ انگور اٹلی سے۔ اسی سندھ میں سینکڑوں گوٹھ  ایسے ہیں جہاں کوئی دینی مدرسہ قائم نہیں ہوسکتا،جہاں دین کی دعوت وتبلیغ کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے قدم نہیں رکھ سکتے۔ یہ وڈیرالوگ چاہیں تو بہترین تعلیم گاہیں اپنے علاقوں میں کھول دیں۔مدرسے قائم کرادیں۔علماء ،مدرسین اورمبلغین کاانتظام اپنے خرچ سے کردیں۔جدیدسہولیات کے ہسپتال بنوادیں ۔سب سے بڑی ضرورت صاف پانی ہے جس کے انتظامات کے لیے ان کے بحرِ ثروت کے چند قطرے کافی ہیں۔ مگرانہوںنے جان بوجھ لوگوں پر یہ ذلت وخواری مسلط کررکھی ہے ۔اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ یہ بڑے لوگ چھوٹے لوگوں کو غلام بناکررکھناچاہتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ پانی کے لیے رونے دھونے والوں کواگر پانی دے دیاگیا تویہ پیٹ بھرروٹی بھی مانگیں گے۔روٹی مل گئی تو علاج کاحق بھی مانگیں گے۔ علاج کاانتظام کیاگیاتوانہیںبجلی کی بھی فکر ہوگی۔بجلی مل گئی تویہتعلیم کا سمیت ہر وہ حق مانگنے لگیں گے جودوسروں کومیسر ہے۔ یہ انصاف کے لیے لڑیں گے اورایک دن ان کے ہاتھ ہوںگے اورہماراگریبان۔ اس لیے بڑے لوگوں کی سیاست یہی چلی آرہی ہے کہ تاقیامت انہیں بوندبوند پانی کے لیے ترسایا جائے۔سندھ کے وڈیروں کومیں نے محض مثال کے طورپرپیش کیاہے ،ورنہ پورے ملک میں   کہیں بھی فرعونوں کی کمی نہیں جو اپنے اختیارات ،مال وجاہ اورمنصب کے بل بوتے پرریاست کے اندرریاستیں قائم کیے ہوئے ہیں اورعوام ان کے جبرقہرتلے سسک رہے ہیں۔ 
  مگرجیساکہ میں نے عرض کیا،کچھ اچھے لوگ بھی ہیں اورحالات کوبدلناچاہتے ہیں۔ ہماری حکومت بھی بارباراس عزم کودہراتی ہے کہ وہ ملک سے جہالت، پس ماندگی،بدامنی ،لوڈشیڈنگ وغیرہ کوختم کرکے دم لے گی۔ میں سمجھتاہوں کہ حکومت ضرور نیک نیتی ہوگی مگر وہ عزم مصصم جوحالات کوبدل دیا کرتاہے ،وہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔اگر عزم مصمم ہوتو اس کانتیجہ بہت جلد پوراملک دیکھ لیتاہے۔
ابھی عشرہ محرم میں ہم سب نے دیکھاکہ حکومت نے امن وامان قائم کرنے کے لیے مضبوط پالیسی بنائی،کسی کوکوئی رعایت نہ دی۔ افسران واہلکاروں نے احکام وضوابط کونافذ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نتیجہ یہ نکلاکہ عشرۂ محرم امن وامان سے گزرگیا۔ پھر بڑے شہروں کے لو گ گواہ ہیں کہ نواوردس محرم کو کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی۔ ایسالگتاتھاکہ یہ پاکستان نہیں کوئی اورملک ہے۔ جب حکومت نے طے کرلیاتو جوچاہا،وہ ہوگیا۔ کوئی مشکل نہیں کہ لوگوںکوبنیادی سہولتیں مہیاکرنے کایہ جذبہ اوریہ عزم پورے سال رہے ۔سرکاری اورغیرسرکاری ہر سطح پر موجودپاکبازاورمحب وطن لوگوں کوتلاش کرکے ان  کی خدما ت سے فائدہ اٹھایاجائے تویہ کام بہت آسان ہوجائے گا۔
      نگاہِ مردمؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
یقین مانیے کہ اگر موجودہ حکومت اپنے باقی ماندہ ایام میں اسی جذبے کی نمودکھلادے تواگلے الیکشن میں فتح اس کامقدر ہوگی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter