Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

36 - 52
   بے سود کش مکش
     حکیم محمد سعید شہید پاکستان کی تاریخ کی ایک ہر دلعزیز، مقبول اورمحبوب شخصیت تھے ۔ہمدردوقف کے نام سے ان کاادارہ دکھی انسانیت کی خدمت میں مشغول ہے۔ ان کے کارنامے بے شمار اورمداح بھی۔ انہوںنے اپنے ایک سفر نامے میں پاکستانی سیاست دانوںکی بے سودمحاذ آرائی کی ایک مثال دیتے ہوئے خوداپنے اوپر بیتا ہواایک  واقعہ لکھا۔
   حکیم صاحب جب بھی بیرونِ ملک دوروں پر جاتے تھے تووہاں کتب خانے ضروردیکھتے تھے۔ انہوںنے لکھا ہے کہ دنیامیںمسلم علماء اوردانشوروں کے لکھے ہوئے تیس لاکھ قلمی نسخے موجود ہیں جنہیںآج تک طبع نہیںکیاگیااوران کی بڑی تعداد اب بھی یورپ کی لائبریریوںمیںمحفوظ ہے۔
حکیم صاحب نے اس دوران کسی مسلم حکیم کی ایک کتاب کی نقل حاصل کی اورحکومت پاکستان کوتجویز دی کہ ان مسلم حکماء کی کتب کے تراجم کیے جائیں اوران کے لیے ایک ادارہ قائم کیاجائے تاکہ دنیا تک ہماری علمی میراث پہنچے۔ چنانچہ اسلام آباد میں ایک ادارہ قائم کردیاگیا۔ حکیم صاحب نے خودبڑی محنت سے اس عربی کتاب کاانگلش میں ترجمہ کیا۔کتاب کامسودہ تیار تھا۔ طباعت کامرحلہ شروع ہونے والاتھاکہ حکومت گرگئی۔ الیکشن ہوئے اورنئی حکومت آگئی جس نے وہ ادارہ سیل  کرادیا۔
   حکیم صاحب نے بڑی مشکل سے اجازت حاصل کی کہ انہیں کتاب کامسودہ حاصل کرنے دیاجائے ، وہ خوداسے طبع کرالیں گے۔ اجازت تودے دی گئی مگراس سے پہلے وہ مسودہ اورساراعلمی ریکارڈ غائب کردیاگیا۔سوائے فرنیچر کے وہاں کچھ باقی نہ تھا۔یہ سب صرف اس لیے تھاکہ گزشتہ حکومت کی نیک نامی نہ ہو۔
   یہ ہماری سیاست کاالمیہ ہے کہ یہاں کسی کو کچھ کرنے نہیں دیاجاتا۔ سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ہی کوکامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اس وقت ملک ایک بار پھر بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پانامہ لیکس کامعاملہ کیا اُٹھا ،ہمارے ملک سے امن وسکون اٹھ گیا۔میاں نوازشریف عوامی مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔ اپوزیشن خصوصاً تحریکِ انصاف نے انتخابی نتائج کو شروع میں قبول کرلیاتھامگر کچھ عرصے بعد اس نے حکومت کے خلاف دھرنامہم شروع کردی۔نہ صرف اسلام آباد کے شہریوں کی جان عذاب میں آگئی بلکہ پوراملک سخت تشویش میں مبتلاہوگیا۔اپوزیشن اپنے الزامات ثابت نہ کرسکی اوردھرنے سے قوم کونجات ملی۔
    ایک مدت بعد ملک سیاسی بحران سے نکلاتھا۔ ہروقت کے اضطراب سے کچھ جان چھوٹی تھی۔مگر اب پانامہ لیکس اورآف شور کمپنیوں کاسراپکڑکراحتساب کے نام سے ایک اورطوفان برپاہے۔
   ہم کہتے ہیں احتساب ضرورہوناچاہیے ۔ حکومتی منصب داروں سے لے کراپوزیشن تک سب کااحتساب  ہوناچاہیے۔ہم اس معاملے میں کسی کی صفائی دینانہیں چاہتے۔اس بات سے حکومت کو بھی انکارنہیں کہ ملک میں کرپشن ہے ۔مگر یہ بھی کسی سے مخفی نہیں کہ احتساب کاشور سیاسی مقاصد کے لیے برپاکیاگیاہے ۔ جب ایک کام اخلاص اوربے لوثی سے خالی ہوتواس کانتیجہ الٹ ہی نکلتاہے۔ 
اس وقت پاکستان مدتوں بعد کسی حدتک تعمیر وترقی کی جانب گامزن ہواہے۔ اقتصادی راہ داری ملک کی خوشحال کی ضمانت ہے جس کے لیے چین کوپاکستان میں امن اورسیاسی استحکام چاہیے ۔مگر اس کی جگہ سیاسی بحران کھڑاکیاجارہاہے۔ 
  یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ پانامہ لیکس کے ذریعے بدنام کی جانے والی حکومتوں میں ایک بات مشترک ہے اورو ہ یہ کہ ان سب سے کسی نہ کسی لحاظ سے امریکہ کوپرخاش ہے۔ حکومت پاکستان سے امریکاکویہ تشویش لاحق ہے کہ وہ اپناجھکاؤچین کی طرف کررہاہے جس کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان امریکا کی دست نگر ی سے آزادہوجائے گا۔امریکاپہلے ہی چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر ورسوخ سے پریشان ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ یکجاہوجانے سے امریکا کی گرفت ایشیاپر بہت کمزورہوجائے گی۔ اس عالمی کھیل کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو شاید بے غرضی کے ساتھ حکمرانوں کااحتسا ب چاہتے ہوں گے۔مگر وقت کی رفتار کو بھی دیکھناچاہیے اوراپنی حرکتوں کے عالمی اثرات کوبھی۔   
    اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام وحکام ،اپوزیشن اورحکومت باہمی اختلاف بھلاکر تعمیرِ وطن کی مہم میں لگ جائیں ۔ میاں صاحب کی حکومت کے بمشکل دوسال باقی رہ گئے ہیں۔ اس وقت کو کسی نہ کسی طرح سکون سے گزرنے دیں۔ میاں صاحب کواپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنے دیں۔ اقتصادی راہداری نکلیں دیں۔ میاں صاحب سے کسی کولاکھ اختلاف سہی،مگراس میں شک نہیں کہ وہ جمہوری نظام کے تحت پانچ سال کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔آج اپوزیشن انہیںتنگ کرکے ان کی حکومت کاتختہ الٹناچاہتی ہے توکل کسی اور کوبھی اقتدارملنے کے بعد یہ اطمینان نہیں ہوسکے گاکہ کوئی اس کے خلاف اسی طرح کابحران کھڑانہیں کرے گا۔ عوام اس کھیل سے تنگ ہیں ۔ وہ سیاست دانوں کو کسی عملی خدمت میں لگادیکھناچاہتے ہیں ۔اس وقت جو بھی ان کے دکھ درد کاازالہ کرے گااورملک کوتعمیر وترقی کی طر ف لے جانے میں پیش پیش ہوگا،اگلی حکومت خود بخوداسی کی ہوگی۔
 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter