بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار
حسن ابدال کے قریب سے گزرکرمردان کی طرف جانے والا موٹر وے پرسوں سے بند ہے۔اسے ہماری فضائیہ کے شاہین جنگی مشقوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔جگہ جگہ ہمارے جوان فوجی ٹرکوں پر آتے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی کے چہر ے پر کوئی خوف وملال نہیں۔ شہرہوں یادیہات ، ہر جگہ ایک ہی آواز ہے کہ بھارت کے مقابلے میں ہم ایک ہیں۔
ایساکیوں نہ ہو۔آخر یہ وہ پاکستان ہے جوکروڑوں مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کے معجزے کے طورپر وجود میں آیا۔اکھنڈ بھارت کاخواب دیکھنے اورمسلمانوں کومحکوم بنائے رکھنے کی مرہٹہ ذہنیت رکھنے والے ہندو سیاست دانوں نے پاکستان کے وجود کوروزِ اول ہی سے قبول نہ کیا۔ پاکستان بنتے ہی کشمیر کے مسئلے پر جنگ چھڑ گئی۔۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ کی قراردادکے سبب جنگ بند ہوئی اور کشمیریوں کاحقِ خودارادیت عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا مگر بھار ت نے قراردادپر عمل نہیں ہونے دیا۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ بھی کشمیر کی مسئلے کی وجہ سے چھڑی۔کارگل کی جنگ کامحاذ بھی کشمیر تھا۔
اب مقبوضہ کشمیر میں ۱۷بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان اوربھارت میں ایک بارپھر سخت تناؤ کی کیفیت ہے۔ بھارت کی طرف سے حسبِ معمول فوری طورپر یہ الزام پاکستان پر عائد کیا گیا۔ بھارت کی یہ پرانی روش ہے کہ وہاں ہونے والی ہر دہشت گردی کاالزام یک دم پاکستان پر دھر دیاجاتاہے۔ادھر خبر نشر ہوتی ہے ، ادھر فیصلہ بھی ہوجاتاہے کہ یہ آئی ایس آئی کی کارستانی ہے۔ساتھ ہی پاکستان کو سخت نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
مگر اس بار بات دھمکیوں سے کچھ بڑھ کرہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی اوراس کاگروہ جمہوریت پرنہیںسفاکیت پر یقین رکھتے ہیں۔گجرات کے قتلِ عام نے مود ی کوجہاں دنیابھرمیں قصاب مشہورکیاوہاں وہ متعصب ہندوؤں میں بڑالیڈرشمارہوا۔ اسی زینے پر قدم رکھ کر وہ آخروزیر اعظم بن گیا۔مودی نے اس مقتدرعہد ے کاکوئی لحاظ نہیں رکھااورکھل کرکہاکہ بھارت مکتی باہنی کوتربیت د ے کر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کودولخت کرنے میں پیش پیش رہاہے ۔یہ بھی فخرسے کہا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو بھارت تربیت دیتاآیاہے۔مودی نے اقوام متحدہ کی قراردادکامذا ق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ بات قصہ پارینہ بن چکی ہے۔کشمیر بھارت کاحصہ ہے اوررہے گا۔مودی کی مسلم دشمن پالیسی نے کشمیری مسلمانوں کے اشتعال واضطراب میں اضافہ کیااوربھارتی فوج کے مظالم کے جواب میں وہاں آزادی کی تحریک پہلے سے زیادہ توانا ہوتی جارہی ہے۔
دوسری طرف سی پیک منصوبے نے دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔کہاجاتاہے کہ یہ ایشیا کی تاریخ میں سب سے بڑااقتصادی وترقیاتی منصوبہ ثابت ہوگا۔دنیا کے بہت سے ممالک کی نگاہیںاس منصوبے پرمرکوز ہیں اورہرایک اپنے اپنے طورپر اس سے وابستہ معاشی فوائد سے اپنا حصہ وصول کرنے پر غور کررہاہے۔
بھارتی نیتااپنی متعصب ذہنیت کی بناء پر مسلمانوں کوہمیشہ سے مفلس وقلاش اوراپنامحتاج دیکھناچاہتے ہیں۔اسی لیے فرنگیوں اورہندؤوں کی ملی بھگت سے پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہی کنگال کرنے کی سازش تیارکرلی گئی اوراسی لیے جواہرلال نہرونے کہاتھا:
’’جناح کواس کاپاکستان دے دو۔کل وہ ہاتھ جوڑکرکہے گاکہ پاکستان واپس لے لو۔‘‘
مگر مسلمانانِ پاکستان نے اس چیلنج کامنہ توڑجواب دیااورصرف چھ سات سالوںمیں اقتصادی بحران اس طرح نجات حاصل کرکے دکھائی کہ پاکستانی روپے کی قدربھارتی سکے سے بڑھ گئی۔
ایوب خان کے دورمیں پاکستان نے مزید معاشی ترقی کی اورنئی نئی انڈسٹریاں کھلنے سے پاکستان ایشیامیں اقتصادی طورپر تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک میں شامل ہوگیا۔بعد کے ادوار میں پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہوئی۔سقوطِ مشرقی پاکستان نے ہمیں مزید کمزورکیا۔افغانستان پر روسی حملے،وہاں کی خانہ جنگی ، ایران عراق جنگ اوراندرونِ ملک دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے بھی پاکستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے۔
……
تاہم موجودہ حکومت نے سی پیک منصوبے کے ذریعے جو قدم اٹھایاہے ،امید ہے کہ وہ ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی کردے گا اورپاکستان خطے میں ایک مضبوط معاشی طاقت بن کرابھرے گا۔
بھار ت اس منصوبے کوتلپٹ کرنے کے درپے ہے۔اس کے لیے وہ دہشت گردی اورسیاسی انارکی سمیت ہرحربہ آزماچکاہے مگر الحمدللہ مسلمانانِ پاکستان نے اس کی کسی چال کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔
ایسے میں بھارت کی آخری کوشش یہ ہے کہ اس خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیاجائے تاکہ سی پیک منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے۔
کشمیر میں ۱۷فوجیوں کی ہلاکت کو بہانہ بناکر بھارتی قیادت جس طرح پاکستان پر چڑھ دوڑی تھی اس سے لگتاتھاکہ ہوائی قلعوں میں بیٹھے بھارتی نیتا چند دنوں میں پاکستان فتح کرلیں گے۔مگر اللہ کاشکر ہے کہ ہماری قیادت نے اس موقع پر’’اشداء علی الکفار‘‘ ہونے کاثبوت دیا۔ سفارتی محاذ پر بھی بھارت کودندان شکن جواب دیے گئے اورمیڈیا کے میدان میں بھی پاکستانی صحافیوںنے بھارتیوں کے خوب لتے لیے۔پھر ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نہایت تدبراورجرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے فوج کوجنگی مشقوں میں مصروف کردیا۔ ماننا پڑے گاکہ آرمی چیف برہمن ذہنیت کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جو کمزوروں کے لیے شیر اوربہادروں کے سامنے بھیڑ ہے۔
اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ بھارتی قیادت کی طرف سے ایسے پیغاما ت آناشروع ہوگئے کہ پاکستان ۱۷فوجیوں کی ہلاکت کی تفتیش میں مددکرے۔ جوپہلے پاکستان کومجرم ٹہراکرسزاکے طور پر جنگ کافیصلہ سنارہے تھے،اب کہہ رہے ہیںکہ ضروری نہیں کہ پاکستان ہی ملوث ہو۔
بہرکیف اب سیاسی، سفارتی ،ابلاغی اورنفسیاتی طورپر پاکستان کاپلہ بحمداللہ بھاری ہے۔ پاکستان نے گزشتہ تین سالوں میں اچھی سفارتی کوششوں سے سعودی عرب اورترکی کوبھی قریب ترکرلیاہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے حالیہ دورہ امریکہ میں امریکی قیادت سے صاف صاف باتوں نے بھی ماحول کوپاکستان کے حق میں سازگارکیاہے۔ قوم کویہ پے درپے فتوحات مبارک ہوں ۔دعاہے کہ ہماری تدبیردرست رہے،ہمارااِتحاد واتفاق کسی سازشی کے کرتوتوں کی بھینٹ نہ چڑھے اورسب سے بڑھ کراللہ ہماراحامی وناصر رہے،جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے دین سے وابستہ اوراس کی خدمت میں سربکف رہیں۔اللہ کاوعدہ ہے:
’’اے ایمان والواگرتم اللہ (کے دین ) کی مددکروگے تواللہ تمہاری مددکرے گا‘‘
{سورۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم}