Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

48 - 52
ممتازاُمتی
زندگی اللہ کی امانت ہے ۔اس میں ایک لمحہ بھی ہمارااپنا نہیں۔مگراس کے باوجود ہم زندگی کواپناسمجھتے ہیں۔جس نے عارضی طورپر ہمیں زندگی دی،ہم اس کو بھول جاتے ہیں ۔اگر وہ زندگی سے کچھ لمحات مانگتاہے توہم وہ بھی اسے لوٹانانہیں چاہتے ۔حالانکہ یہ متاعِ زیست ہے ہی اسی کی۔ دینا بھی اس کاکام ہے اورلینا بھی ۔ہمارااختیار توصرف اسے صحیح استعمال کرنے کی حدتک ہے۔
    ایک امتی کے لیے اس سے بڑھ کر شرف اورسعاد ت کی بات کیاہوسکتی ہے کہ اس کی جان آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وحرمت پر قربان ہوجائے۔یہ تو وہ مقام ہے جس کی صحابہ نے آرزو کی،جسے اپنی زندگی کامقصد سمجھا ،جس کے لیے وہ تلواروں سے کٹے ،نیزوں سے چھدے ،تیروں سے چھلنی ہوئے مگر دم توڑتے توڑتے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی فکر رہی،اپنی جان ومال گھرباراوربال بچوں کی نہیں ۔وہ آخری لمحا ت میں بھی دنیاوالوں کویہی پیغام دیتے رہے کہ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شریک تھے۔ جنگ کے بعدان کا پتہ نہ لگا کہ کہاں ہیں۔ نہ غازیوں میں نظر آتے تھے نہ زخمیوں میں یا شہیدوں میں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند ہوئے ۔فرمایا: ’’کوئی جاکر سعد بن ربیع کی خبر لائے۔‘‘ حضرت اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ گئے ۔ تمام لاشوں میں گھوم پھر کر ان کو تلاش  کیا۔ آواز بھی دیتے رہے۔ یہ بھی کہا: ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طلب میں بھیجا ہے۔‘‘
اس پر لاشوں کے درمیان سے ایک دھیمی دھیمی سی آواز بلند ہوئی: ’’میں یہاں مرنے والوں میں پڑا ہوں۔‘‘اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ جلدی سے آواز کی سمت گئے ۔ دیکھا کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ دم توڑرہے ہیں۔ زبان بند ہورہی ہے۔ جسم پر نیزے کے بارہ زخم تھے، مگر اس حال میں بھی  اس سچے عاشق نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو… میرا سلام کہنا… انصار سے کہنا کہ… اگر خدا نہ کرے… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید کردیئے گئے… اور تم میں سے… کوئی زندہ بچ گیا تو… خدا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوگے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی جنابِ سعد رضی اللہ عنہ کی روح مبارک پرواز کرگئی۔ 
 صحابہ کی حیات کاایک ایک ورق ایسے کارناموں سے لبریز ہے ۔مگرجانثاروںکاکارواں یہاں نہیں رکا بلکہ چلتارہا۔ان کے دم سے اسلامی تاریخ کے صفحات تابندہ رہے۔برصغیر پاک وہند کادامن بھی اس حوالے سے خالی نہیں۔ راج پال نے دریدہ دہنی کی تو غازی علم دین نے ناموسِ رسالت کے دفاع کاحق اداکردیا۔ غازی عبدالقیوم اورحاجی مانک آج بھی عاشقانِ رسالت کے لیے آئیڈیل ہیں۔یورپ میں گستاخانہ خاکوں کی لہر اٹھی تو ایک پاکستانی مجاہد عامرچیمہ نے دنیا کوبتادیاکہ مسلمانوں کے خون میں اب بھی وہی حرارت ہے۔ پاکستان میں تحفظِ ناموس رسالت کے قانون کے خلاف آوازاٹھی تو شہید ممتاز قادری نے اپنے ضمیر اورایمان کی آواز پرلبیک کہنے میں دیرنہ لگائی۔ 
   ممتاز قادری کوپھانسی کاواقعہ دردناک ضرورہے مگرغیرمتوقع نہیں ۔ جو کچھ ہوا،وہ ہوناہی تھا۔ ممتا ز قادری کو زندگی پیاری ہوتی تو وہ جان کی بازی کیوں لگاتا۔اس نے جوکچھ کیاتھا ،سوچ سمجھ کرکیا تھا ۔ ہاںمگراس نے سودوزیاں کاحساب کتاب نہیں لگایاتھا۔ کہ حساب کتاب کرنے والے ہماری طرح کاغذ وقرطاس ہی میں الجھے رہ جاتے ہیں اور آگے بڑھنے والے ایک جست میں دوجہاں کاسوداکرجاتے ہیں۔ہاں ممتاز قادری انسان تھا۔ اس نے آخر میں رحم کی اپیل کردی تھی مگر اس لیے کہ وہ گھر کاواحد کفیل تھا۔اس نے جوکیااگر وہ قانوناً جرم تھا توبھی ،وہ ان سینکڑوں مجرموں سے بڑھ کرنہیں تھا ،جواسی سرزمین پر آزاد گھوم رہے ہیں ۔ان میں سے ایک ایک کے دامن پر درجنوںانسانوں کاخون لگاہے، بیسیوں عصمتوں کی پامالی کی کالک ان کے چہرے پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کے ظلم وجبر سے انسانیت سسک رہی ہے اوردھرتی کانپ رہی ہے ۔مگر وہ بڑے لوگ ہیں ۔ ان تک کسی کاہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ ان کے خلاف کوئی گواہی نہیں د ے سکتا۔ یہاں لڑکیوںکو سربازار بے آبروکردیاجائے یا اپنی خدائی کے خلاف آوازاٹھانے والے کسی بوڑھے کی ٹانگیں سب کے سامنے لاٹھیاں مارمارکر توڑدی جائیں ، قانون حرکت میں نہیں آتا۔ اکثر وبیشتر تومقدمے کااندراج ہی نہیں ہوپاتا۔ بہت جان لڑاکر کیس داخل دفترہوجائے تو مقدمہ چلتے چلتے مدعی دنیاسے رخصت ہوجاتاہے۔ فوج داری مقدمات میں آٹھ دس سال اوردیوانی مقدمات میں تیس چالیس سال گزرجاناعام سی بات ہے۔ مگر یہ سب تو معمول کاحصہ ہیں ۔بڑے صاحبان کے ہاتھوںقانون کی یہ پامالی ہماری اقدارمیں شامل ہوچکی ہے۔ 
    دنیا کی نگاہ میں ممتاز قادری بڑاصاحب نہیں تھا۔’’ بڑاصاحب ‘‘وہ تھا جو ماراگیا۔ دنیا کی عدالت میں کیا فیصلہ ہوگا،یہ تو واردات والے دن ہی طے ہوگیاتھا۔ ہم اس کے سوا اورامید بھی کیا رکھ سکتے تھے۔پرویز مشرف جامعہ حفصہ میں قتل عام کرکے بھی بری ۔ ممتاز قادری ایک قتل کرکے بھی راتوں رات پھانسی گھاٹ پر۔یہی دنیا کی ریت ہے۔
مگر دنیا ہے ہی کتنے دن کی۔ سلمان تاثیررہا نہ ممتا زقادری۔مشرف بھی کب تک رہے گا۔ وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں جو زندگی کا مقصد ایک لمحے میں پالیں،ایک لمحے میں آریاپار کافیصلہ کرگزریں ۔ایک بازی میں ہمیشہ کے لیے امرہوجائیں،ایک جست میں ثریٰ سے ثریا کافاصلہ طے کرجائیں ۔یہ حوصلہ کسی کسی کاہوتاہے۔ یہ مقام کسی کسی کوملتاہے۔یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ جو ممتازہوتاوہی ایساکرپاتاہے اور جسے یہ سعادت ملے ہے وہ ممتاز ہوجاتاہے۔ ممتازقادری واقعی ممتازاُمتی تھا۔
6-03-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter