Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

25 - 52
جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا
    دنیا میں اس وقت دوخطے خطرناک ترین شمار کیے جارہے ہیں۔ایک مشرقِ وسطیٰ ۔دوسرے جنوبی ایشیا۔ گزشتہ پانچ سال سے سب سے زیادہ اسلحہ بھی انہی دونوں خطوں میں خریداجارہاہے۔دنیا میں اسلحہ خریدنے والاسب سے بڑاملک بھارت ہے۔ اسلحے کادوسرا بڑاخریدار سعودی عرب ہے جسے یمن ، عراق اورمشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے سبب اپنے دفاع پر غیرمعمولی توجہ دینا پڑرہی ہے۔ اسلحے کا تیسرا بڑا خریدارپاکستان ہے جس نے گزشتہ برس735ملین ڈالرکااسلحہ درآمد کیا۔پاکستان زیادہ تراسلحہ چین سے خرید رہاہے۔ گزشتہ برس خریدے گئے اسلحے میں سے 565ملین ڈالر کااسلحہ چین سے لیا گیا تھا۔ جبکہ 170ملین ڈالر کے ہتھیار امریکا سے لیے گئے ۔
مگر پاکستان کے مقابلے میں دنیا کے نمبرون اسلحہ گیر بھارت نے صرف گزشتہ ایک سال میں تین ہزار78ملین ڈالرخریدا۔گویا بھارت پاکستان کے مقابلے میں چارگنا سے بھی زیادہ تیزی سے اسلحہ جمع کررہاہے۔اسے اسلحے بیچنے والوں میںپہلے نمبر پر روس ہے جس نے اسے ایک سال میں ایک ہزار 964ملین ڈالرکااسلحہ دیا۔ دوسرے نمبر پر اسرائیل ہے جس نے بھارت کوایک سال میں  316ملین ڈالر کااسلحہ فروخت کیا۔ امریکاتیسر ے نمبر پر ہے جو ایک سال میں ہمارے ہمسائے کو 302ملین ڈالر کااسلحہ بھیج سکا۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کررہے ہیں کہ بھار ت اَمن مذاکرات کی رٹ لگانے کے باوجود ،ایک بہت بڑی جنگ کی تیار ی کررہاہے ۔جبکہ روس ا وراسرائیل اسے یہ جنگ جتوانے میں پوری طرح دلچسپی لے رہے ہیں۔
  تماشایہ ہے کہ بھارت خود پوری دنیاسے اسلحہ سمیٹنے کے باوجود پاکستان کو نہتا دیکھنا چاہتاہے۔ اس لیے حال ہی میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے فیصلے پراس نے شدیداحتجاج کیاہے ۔تاہم امریکانے بھارت کے احتجاج کو گھاس نہیں ڈالی ۔امریکانے بھارت کی تشویش کومستر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے یہ معاملہ خطے کی سیکورٹی صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے کیاگیاہے۔ 
    اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کو پاکستان بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں۔اس وقت ایف سولہ طیاروں کی فروخت کافیصلہ برقراررکھنے کی وجہ یہ ہے کہ امریکاکوخطے میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ وہ اب کسی بھی طرح افغانستان کامسئلہ حل کرناچاہتاہے،جہاں جاری جنگ کو پندرہواں سال چل رہاہے۔ اگریہ جنگ مزید پندرہ سال چلی تب بھی اس کانتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوگاکہ امریکا کی افرادی اورمعاشی طاقت کاایک بڑاحصہ یہاں ضایع ہوتارہے گا۔
  حالات کایہ پہلو مسلم ممالک کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جن کے پاس تیل اورمعدنی ذخائر بے پناہ ہیں  مگر وہ اپنے دفاع کے لیے پوری طرح دوسروں کے رحم وکرم پر ہیں۔ان کے پاس کوئی اسلحہ سازفیکٹریاں نہیں ۔ وہ اغیار کو منہ مانگی دولت دے کر اپنے دفاع کاکوئی سہارابنانے پر مجبور ہیں۔جبکہ اسرائیل جیسا چھوٹاساملک اسلحہ سازی میں چین اورامریکا کے قریب قریب پہنچ رہاہے ۔بھارت جیسی بڑی طاقت کے پاس بھی وہ ٹیکنالوجی نہیں جو اسرائیل کے پاس ہے۔ اسی لیے بھارت کوامریکا سے بھی زیادہ اسلحہ اسرائیل سے خریدنا پڑرہاہے۔مسلم دنیا میں اس وقت  پاکستان کے سوا،کوئی ایسانہیں جو اسلحہ ساز فیکٹریاں لگاچکاہو۔ حالانکہ پاکستان معاشی واقتصادی لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ اورخلیج کے متمول ملکوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔مگر پاکستان بھار ت کے جنگی جنون اوراسلحے کی دوڑ کو نظر اندازنہیں کرسکتا ،اسی لیے وہ اپنی بساط کی حدتک دفاعی سامان تیاربھی کررہاہے اورخرید بھی رہا ہے۔ ہمارے لیے اس وقت سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت خریداہوااسلحہ صرف پاکستان کی مشرقی سرحدوں یاکشمیر میں استعمال نہیں کررہابلکہ اس کاایک اہم مصرف افغانستان ہے جہاں بھارت اپنااثرورسوخ بڑھانے میں خاصی کامیابی حاصل کرچکاہے۔ افغان فوج کوتربیت دینے کے علاوہ مبینہ طورپر وہاں پاکستان میں تخریب کاری کے لیے خفیہ ٹریننگ کیمپ بھی کھلے ہوئے ہیں جہاں بھارتی اسلحہ دھڑادھڑ پہنچ رہاہے۔
   افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کاری اوربدامنی کے ذریعے بھارت کاایک بڑاہدف یہ حاصل کرناچاہتاہے کہ پاکستان کی اس ممکنہ معاشی ترقی کوروک دے جو چین کے ساتھ اشتراکِ عمل سے متوقع ہے۔ اقتصادی کو ریڈور ،جہاں پاکستانی عوام کے لیے ترقی کی روشن امیداورچین کے لیے اقتصادی میدان میں بلندترمقام تک پہنچنے کازینہ ہے ، وہاں بھارت کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ تاہم پاکستان کوکسی بھی قیمت پراس منزل تک پہنچناہوگا۔ جنرل راحیل شریف  کے اس بیان کے تناظر میں کہ اقتصادی کوریڈور کو کسی بھی قیمت پر تکمیل تک پہنچائیں گے، ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت ،اس منصوبے کوپاکستان کی فنا وبقا کامنصوبہ تصور کررہی ہے اورچین کے لیے بھی اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔ مگر جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوجاتا،پاکستان  اورچین کے لیے  اپنے اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی میں رکاوٹیں پیداہوتی رہیں گی۔ 
  یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے ساتھ چین بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے نہایت سنجیدہ ہے اوراس کی قیادت اس موضوع پر امریکا سے رابطے میں ہے۔اوراب انہی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان ،چین ، امریکااورافغان حکومت کے مشترکہ طورپر طالبان سے بلاواسطہ مذاکرات کی صورت میں نکلنے کی امید کی جارہی ہے۔ا ب تک مذاکرات کاحتمی شیڈول طے نہیں ہواہے مگر کہاجارہاہے کہ ی مذاکرات ماضی سے مختلف نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔
  اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان مذاکرات ،میں پاکستان کاکردار اہم ترین ہوگا کہ فریقین کو قریب لانے میں بھی پاکستان کاغیر معمولی  حصہہے ۔قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت ہرفریق اپنے اپنے موقف میں کچھ لچک پیداکرے اوراپنے ہر ہر ہدف کی تکمیل پر بضد نہ رہے۔یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ قیام امن غیرملکی افواج کے انخلاء کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ امریکااگر واقعی چاہتاہے کہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی فوجوں کوواپس لے جائے اوراس جانکاہ عذاب سے چھٹکاراپائے جو گلے کی ہڈی بن چکاہے ، تو اسے افغانستان اورپاکستان دونوں کے بارے میں چند چیزوں کافیصلہ کرناہوگا۔
  طالبان کاکردار تسلیم کرتے ہوئے افغانوں کوایک اسلامی شرعی حکومت بنانے کی آزادی دینااوروہاں مداخلت کرنے یاپسِ پردہ رہ کرخانہ جنگی کو طول دینے کی مذموم م پالیسی ترک کرناہوگی۔ بھارتی بالادستی کے مقابلے میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل پر سپورٹ دیناہوگی۔ پاکستان کوایک آزاد اورخودمختارمملکت سمجھناہوگا۔ افغانستان سے دینی ،نسلی اورسرحدی ملاپ کے باعث ، افغانستان میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ معاملات کچھ لواورکچھ دوپر استوارہوں گے۔ اگر امریکا صرف اپنے مفادات سمیٹنے کے خبط میں مبتلارہاتواس کے حصے میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔
٭٭٭
01-03-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter