Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

8 - 52
میرے وطن کابانکاسپاہی
    ۲۲اکتوبر کوکراچی میں بین الاقوامی دفاعی نمائش کاآغاز ہوا۔اس میں روس اورترکی سمیت دنیا کے ۴۳ممالک کے وفود شریک ہوئے اور۴۱۸دفاعی اداروںنے اپنی حربی مصنوعات پیش کیں۔نمائش  کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں ہواجس میںچیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے علاوہ بحری اورفضائی مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے۔سیلف ڈیفنس سے لے کر ملکی سرحدوں کے دفاع تک سے متعلق مختلف قسم کے ہلکے اوربھاری اسلحے کوغیرملکی مہمانوں نے بڑی دلچسپی سے دیکھا۔پاکستانی ساختہ ڈرون طیارے ’’براق‘‘بھی نمائش میں خاص اہمیت کاحامل رہا جو نہ صرف ساکت بلکہ متحرک چیزوں کونشانہ بنانے کی بھی صلاحیت رکھتاہے۔سیدالشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے نام نامی کی طرف منسوب گیارہ افراد کی گنجائش رکھنے والی بم پروف بکتر بند گاڑی’’حمزہ‘‘بھی لوگوں کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہی جو کمپیوٹرائزڈ ہے اوردورِ جدیدکی بہترین ٹیکنالوجی کی حامل ہے۔ نمائش حسب ِ توقع پاکستان کی حربی مصنوعات کی مانگ بڑھانے میںمعاون ثابت ہوئی۔ عسکری ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کے متعددممالک کے وفود اوراداروں سے معاہدے  ہوئے۔مشاق طیاروں کی فروخت اور آگسٹا آبدوزکی اپ گریڈیشن کے لیے ترکی کے ساتھ معاہدہ ہوا۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے نام پر تیار کردہ ’’ الخالدٹینک ‘‘دنیا بھر کی توجہ کامرکز بنا ہوا ہے۔ اس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔حالیہ نمائش کے دوران یوکرائن کے ساتھ ایک معاہدہ ہواجس کے تحت الخالدسیریز کے لیے یوکرائن انجن فراہم کرے گا۔چین کے تعاون سے تیارکردہ جے ایف،۱۷ تھنڈرکی اپ گریڈیشن کے لیے فرانس کی ایک کمپنی سے معاملات طے ہوگئے ہیں۔
  پاکستان جنوبی ایشیا کاواحد ملک ہے جوباقاعدگی سے اسلحہ سازی کی بین الاقوامی نمائش ہرسال منعقد کررہاہے ۔بین الاقوامی دفاعی ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستانی ساختہ اسلحہ عالمی معیار کے مطابق ہے جس سے ہر ملک فائدہ اٹھاسکتاہے۔
٭
   اس وقت پاکستان کے آرمی چیف جناب جنرل راحیل شریف اپنی مدت پوری کرکے کسی توسیع کے بغیرعہدے سے رخصت ہورہے ہیں۔۲۴اکتوبر کو باڑہ میں شاہد آفریدی اسٹیڈیم کے افتتاح کے موقع پر وہ اپنے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ میں ۲۹اکتوبر کو فوج کوخداحافظ کہہ رہاہوں۔انہوںنے ریٹائر منٹ کے بعد کی مصروفیات کے حوالے سے یہ اعلان کرکے بھی لوگوں کے دل جیت لیے ہیں کہ وہ باقی زندگی شہداء کے لواحقین کے لیے وقف کریں گے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ جنرل راحیل شریف کا فوج اورسپاہیوںسے دلی تعلق کتنا گہرا ہے۔ انہوںنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں واقعی یہ ثابت کیاہے کہ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ادارے سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
  جنرل راحیل شریف ۱۶جون ۱۹۵۶ء کو کوئٹہ میں پیداہوئے ۔ان کے والد رانا محمد شریف بھی پیشہ ور سپاہی تھے ۔میجر کے عہدے پر کوئٹہ میں تعینات تھے۔ راحیل شریف کی ولادت کے وقت ان کے بڑے بھائی شبیر شریف تیرہ برس کے تھے۔باپ کی طرح شبیر شریف نے بھی فوج میں ملازمت کی اور آخرکارمیجربنے۔۱۹۶۵ء کی جنگ میں شجاعت وبسالت کی مثال قائم کرتے ہوئے ستارۂ جرأت حاصل کیا۔میجر راجا عبدالعزیز بھٹی ان کے رشتے کے ماموں لگتے تھے جواسی جنگ میں شہید ہوکر ’’نشانِ حیدر‘‘ کے مستحق ہوئے تھے۔ 
  میجر شبیر شریف نے بھی ماموں کی پیروی کی اور۱۹۷۱ء کی جنگ میں نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کارتبہ پایااور’’نشانِ حیدر‘‘والے جوانوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ اس وقت شہید کی عمر۲۸برس تھی جبکہ راحیل شریف لگ بھگ پندرہ برس کے تھے۔ 
   بڑے بھائی کی سرفروشانہ روایت کودہرانے کے لیے ۱۹۷۴ء میں وہ بھی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ کاکول اکیڈمی میں ڈیڑھ سال تک سخت تربیت کے مراحل سے گزرے اورآخر اپنی قابلیت اورلیاقت کی وجہ سے ترقی کرتے کرتے اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔نومبر ۲۰۱۳ء میں جب انہیں چیف آف آرمی اسٹاف منتخب کیاگیاتوا س وقت وہ جی ایچ کیو میںانسپکٹر جنرل ٹریننگ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ سنیارٹی میں وہ تیسرے نمبر پر تھے ۔ان سے پہلے جنرل ہارون اسلم اورجنرل راشد محمود تھے مگر قرعۂ فال انہی کے نام نکلا ۔انہوںنے اس عہدے پر تین سال میں ملک وقوم کے لیے شاندار خدمات انجام دیںاورملکی سلامتی کو لاحق خطرات کابڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔تین سال پہلے کے مقابلے میں آج پاکستان کہیں زیادہ مضبوط اورتوانا ہے۔ ملکی سالمیت سے کھیلنے والے عناصر بلوں میں چھپنے پر مجبورہوگئے ہیں۔کراچی میں دہشت گردوں کی پٹائی اورشمالی وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک مرگز گریز طاقتوں کادب جانا ان کے اٹل ارادوں کا کرشمہ ہے۔
    اپنے کیرئیر کے آخری مہینوں میں انہوںنے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کاڈٹ کرجواب دیااورہر فورم پر بھارت کوبے نقاب کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ پھر بالکل آخر میں انہوںنے بڑے بڑے قومی رہنماؤں کی اپیل کے باوجود مدتِ ملازمت میں توسیع کی ہر کوشش سے اجتناب کرتے ہوئے ایک اورعمدہ مثال پیش کردی ہے۔ان پہلوؤں سے یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول فوجی سربراہ مانے جائیں گے ۔ ان کانام میجرطفیل محمد،راجا عبدالعزیز بھٹی اورمیجرشبیر شریف کے ساتھ لیاجائے گا۔یہ سب ہمارے جیالے سپاہی تھے جن کی کارکردگی پر قوم ہمیشہ فخر کرسکتی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر ایک پرانی نظم کے یہ الفاظ لبوں پر آجاتے ہیں:
ہم سورہے ہیں ،وہ جاگتاہے
سرحد پہ سینہ تانے کھڑاہے
میرے وطن کابانکاسپاہی
   ………
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter