Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

2 - 52
دس محرم کاسبق
دس محرم کی تاریخ ہمیں اس عظیم شخصیت کی یاددلاتی ہے جس نے اسلامی نظام سیاست کی مطلوب شورائیت کواپنی اصل ہیئت پر لانے کے لیے عزیمت وقربانی کی راہ چنی اورآخرکاراسی پر چلتے ہوئے شہادت کامرتبہ پایا۔مسلمانوں کی سلطنتیں اس کے بعد بھی چلتی رہیں مگر جس کمزوری کاادرا ک حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اسلامی تاریخ کے اس موڑ پرایک لحظے میں کرلیاتھا،مسلمان صدیوں تک اس کاعلاج نہ کرسکے ۔
خلافتِ راشدہ کومستثنیٰ کرکے آپ کسی بھی اسلامی خلافت ،سلطنت یاامارت کی تاریخ پڑھ کر دیکھئے،ہرایک کے زوال میں موروثی نظام کا عمل دخل بہت واضح دکھائی دے گا۔تاریخ کے ہردورمیں عظیم فاتحین اور ناموربادشاہوں کی بڑی بڑی سلطنتیں ان کے جانشینوں میں اقتدارکی جنگ کا میدان بنتی رہیں۔ تیرہ صدیوں میں مسلمان کہیں بھی، اسلام کی مطلوب اس شورائیت کی طرف واپس نہ پلٹ سکے جو خلافتِ راشدہ کامایۂ امتیاز تھی۔ خلفاء اور بادشاہوں کے مرنے پرشہزادوں اورعزیزوں میں حصولِ اقتدار کے لیے جنگ چھڑناایک معمو ل کی بات تھی۔
اس بناء پرمسلمانوں کوبڑے بڑے بحرانوں سے گزرناپڑا۔اس دوران وہ کئی بارگرکردوبارہ اٹھے مگر ایک باربھی وہ اپنے سیاسی نظام کی بنیادی کمزوریوں کودورنہ کرسکے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر فرقے تو بنے ،شورشراباتو ہوا،مگر مسلمان کسی ایسے نظام کونہ اپناسکے جو مسلم معاشر ے کو درپیش اس مرضِ مزمن کاازالہ کرتا۔حصولِ اقتدار کے لیے شہزادوں اور ارکانِ سلطنت کے درمیان کشت وخون ایک ایسا خطرہ تھاجو ہرآن ہر سلطنت کولاحق رہتاتھا۔ایک دن کے لیے بھی کسی سلطنت کویہ ضمانت نصیب نہیں تھی کہ اگر حکمران مرگیاتواگلے ہی دن کوئی بحران کھڑانہیں ہوگا۔ بنوامیہ ، بنوعباس ، غرنوی ،خوارزمی،عثمانی اور مغل حکمرانوں سمیت ہرحکمران خاندان میں یہ المیے اتنی باررونما ہوئے کہ آج انہیں پڑ ھتے پڑھتے دماغ شل ہوجاتا ہے۔
مسلم حکمران ماضی وحال سے واقف تھے اورجانتے تھے کہ جب تک خاندانی حکومتوںکایہ نظام باقی ہے، ایسے سانحے مسلسل برپاہوتے رہیں گے۔ کسی حکمران کواس سلسلے میں اپنے بیٹوں تک پراعتماد نہیں ہوتا تھا۔اورنگ زیب عالمگیرجیسے نیک بادشاہ تک کو اپنے شہزادوں سے مسلسل بغاوتوں کاخطرہ رہتاتھاجن کی روک تھام کے لیے ہمیشہ شاہی جاسوس سائے کی طرح شہزادوں کے پیچھے لگے رہتے تھے۔عالمگیر کی وفات کے بعد دس سال کے اندراندرجانشینی کی سات خونریز جنگیں ہوئیں جن میں شاہی خاندان کے بہت سے قابل افراد اورہزاروں آزمودہ کارسپاہی ضایع ہوگئے۔
ایک عالم اسلام ہی نہیں ،پوری دنیا میں ملوکیت کاتجربہ بری طرح ناکام ہوچکاتھا اورضرورت تھی کہ مسلمان قرآن وسنت اورخلفائے راشدین کے تعامل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مثالی سیاسی نظام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ خود بھی اس سے فائدہ اٹھاکر خانہ جنگیوں سے نجات پائیں اوردنیا کوبھی امن وسکون کایہ نسخہ مہیاکریں۔مگریہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ملوکیت وموروثیت کانظام انتقالِ اقتدارکے مرحلے کوہمیشہ پرخطر بنائے رکھتاہے اوراس سے ملک وملت کی سلامتی صدہابارداؤپر لگ چکی ہے،اس مرض سے چھٹکاراپانے کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔
آمریت اورشہنشاہیت چین، ہند،افریقہ اوریورپ میں بھی ہزارہاسال سے چلی آرہی تھی اور اس کے منافع و مضرات سے یہ قومیں بھی واقف تھیں۔ انہی تجربات کے نتیجے میں قدیم یونانی فلاسفہ میں یہ بحث چھڑی کہ حکومت عوامی ہونی چاہیے یا شخصی۔بعض فلاسفہ جمہوریت کے حامی تھے اوربعض آمریت کے۔ اس موضوع پرافلاطون اورارسطو کے افکار کاپوراذخیرہ موجود ہے۔اسی زمانے میں یونان کی بعض ریاستوں میں جمہوریت کاتجربہ بھی ہوا تھا جہاں معزز شہریوں پرمشتمل کونسل امورِ حکومت انجام دیتی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ یہ جمہوریت وحی کی روشنی سے محرومی کی وجہ سے ہرطرح آزاد تھی اورہر اخلاقی برائی اس معاشرے میں قابلِ قبول ہوگئی تھی۔ رومی شہنشاہیت نے آکر پادریوں کی مدد سے فلاسفہ کے افکار کودفن اورجمہوری نظام کو پامال کردیامگر ایک حدتک کھلی مشاورت اور شہنشاہوں کے مظالم کی راہ میں امراء کی مزاحمت کاماحول پھر بھی و ہاں برقرارہا جس کااعتراف صحابہ کرام بھی کرتے تھے۔ایک بارحضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو کسی صحابی نے کہا :’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ قیامت برپا ہوتے وقت رومی سب سے زیادہ ہوں گے۔‘‘
حضر ت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کویہ سن کر یقین نہ آیاکیونکہ وہ رومیوں سے جہاد میں فتوحات حاصل کرتے آرہے تھے اورانہیں یقین تھاکہ کچھ ہی مدت میں پورایورپ فتح ہوجائے گااوروہاں کے اکثر لوگ اسلام کے سانچے میں ڈھل جائیں گے اورنصرانی بہت کم رہ جائیں گے۔
چنانچہ انہوںنے حدیث سنانے والے سے کہا:’’سوچ سمجھ کرکہو،تم کیاکہہ رہے ہو؟‘‘
وہ صحابی بولیـ:’’میں کہہ رہاہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایساسناہے۔‘‘
حضر ت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے (اس حدیث پرکچھ غوروفکر کرکے)فرمایا:
’’تم نے جو یہ بات کہی ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ اس قوم میں چارخصوصیا ت ہیں:ایک یہ کہ یہ لوگ ہنگامے کے وقت سب سے زیادہ تحمل کرنے والے ثابت ہوتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ مصیبت کے بعد بہت جلد سنبھل جاتے ہیں۔تیسرے یہ کہ یہ لوگ شکست کے بعد بہت جلد جوابی حملہ کرتے ہیں۔چوتھے یہ کہ یہ مسکینوں ،یتیموں اورکمزوروں کاخیال رکھنے میں سب سے بڑھ کرہیں۔اورایک پانچویں خصوصیت بھی ہے جو بہت اچھی اورخوبصورت ہے ،وہ یہ کہ یہ لوگ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے میں سب سے بڑھ کرہیں۔{صحیح مسلم :کتاب الفتن ۔باب تقوم الساعۃ والروم اکثر الناس}
 سترہویں صدی عیسوی تاریخ کاوہ موڑ تھا جہاں دنیا شہنشاہیت وملوکیت سے بیزارہوچکی تھی ۔ ایسے میں جوقوم بھی دنیا کو بہتراورمتبادل سیاسی نظام دیتی ،وہ اقوام عالم پر سبقت لے جاتی ۔ مسلمان قرآن وسنت کی روشنی ہوتے ہوئے بھی ان مسائل کاکوئی حل نہ نکال سکے۔ادھرسترہویں صدی کے آخر تک فرانس میں جمہوری انقلاب برپاہوگیاجس نے پورے یورپ کومتاثر کیا۔ہر جگہ شہنشاہیت کی گرہ کمزورپڑی اورجمہوری اقدار اپناکر یورپ سیاسی استحکام کے راستے پر چل پڑا۔
چونکہ یہ لوگ مذہب کی رسّیاں تڑواکر آزاد ہوئے تھے ،اس لیے مذہب بیزاری اورعقل پرستی ان کی گھٹی میں پڑ گئی ۔ یہ ایک انتہاء تھی کہ انسان عقل سے کام لینے کے لیے مذہب ہی کو پامال کردے۔
مگردوسری طرف مسلمان ایک دوسری انتہاء پر تھے جس میں جمود ہی جمود تھا۔صدیوں سے جو کہنہ روایات جس طرح چلی آرہی تھیں،ان میں سرِ موانحراف نہیں تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ وہ پہلے  مسلم مفکر تھے جنہوںنے ملوکیت کی مذمت اوراسلا م کے مطلوب شورائی نظام کے احیاء کی طرف دعوت دی مگر ان کے افکار کی اس وقت کماحقہ اشاعت نہ ہوسکی۔نتیجہ یہ نکلاکہ آخر فرنگی ہم پر غالب آگئے اورمغلوں کے خزانے لندن منتقل ہوگئے۔ہم قرآن وسنت اورصحابہ کرام کی سیرت سے اپنے مسائل کاحل اخذکرنے میں ناکام رہے اوردورِ حاضر میں ہم اگر جمہوریت کی طرف لوٹے بھی ہیں تواقوامِ مغرب کی تقلید میں ۔ہمارا سیاسی نظا م آج بھی قابلِ اصلاح ہے۔دس محرم ہمیں یاددلاتاہے کہ اس کوشش میں جان نچھاورکرنا نواسۂ رسول ﷺ اورجگرگوشہ بتول کااسوہ حسنہ ہے۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter