Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

42 - 52
ماہِ رمضان پھر آیا 
  رمضان پھرآیاہے اوروہ بھی بھرپور گرمی کے ساتھ ۔یعنی اس باربھی رمضان گرماگرم ہے۔مجھے یاد کہ  بتیس تینتیس سال پہلے بھی رمضان جون میں آرہاتھا۔ وہ میرے روزے کی ابتداء تھی ۔اس وقت گھروں پر چادریں ہواکرتی تھیں۔گرمی بہت لگتی تھی مگر سچ پوچھیں تو جون کے وہ روزے ان روزوں کی طرح سخت نہ تھے۔ وجہ یہ تھی کہ لوڈشیڈنگ بہت کم تھی ۔ کبھی کبھی کسی کسی دن ڈیڑھ دوگھنٹے کے لیے بجلی چلی جاتی تھی ۔اس کے علاوہ کبھی یاد نہیں کہ بجلی نے منہ چھپانامعمول بنالیاہو۔
مگر اب تو لوڈشیڈنگ کاوہ حال کہ مت پوچھیں۔جہاں پہلے بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ تھی وہاں اب اٹھارہ سے بیس گھنٹے کارمضان پیکج دیاجارہاہے۔ کراچی کے بیشتر علاقوں میں یہی پیکج چل رہاہے۔اگرچہ اہلِ شہر ہاتھ جوڑ کرکہہ رہے ہیں کہ خدارا!ہمیں معاف رکھیں ان نوازشوں سے۔
  دیہات میں توعالم یہ ہے کہ لوگ بجلی والوں کوکنکشن واپس لینے کاکہہ رہے ہیں ۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورابھلا۔اس علاقے سمیت جہاں ہم آبادہیں،گردونواح میں تین دن سے بجلی کانام ونشان نہیں ۔
رمضان میں ہر کسی کادل چاہتاہے کہ سحری اورافطاری میں ٹھنڈاپانی پیے۔ تربوز کی سرد قاشوں سے جسم کی پیاس دورکرے مگر ریفریجٹر کے لیے ٹھیک ٹھاک الیکٹرک پاورچاہیے اوریہاں عالم یہ کہ بجلی آبھی جائے توایسی ڈِم کہ اس پر پنکھا بھی مشکل سے چلتاہے۔بیسیوں گھروں میں سینکڑوں قیمتی آلات جل گئے۔ لوگوںنے تنگ آکر ریفریجٹر بندہی کردیے۔ رمضان میں بھی گرم چیزیں ہی حلق سے اتارنا پڑ رہی ہیں۔ یہ سب پریشانیاں بھی کم ہیں اس مصیبت سے جو پانی نہ ہونے سے لوگوں پر ٹوٹ رہی ہے۔ گھروں میں پہلے چرخی والے کنوئیں ہوتے تھے مگر بجلی کی مہربانی سے پچھلے دس پندرہ سالوں میں سب نے موٹریں لگالی ہیں۔ اب بجلی بند تو موٹریں بند۔ ٹنکیاں خالی ۔ پانی ذرادورہے مگر اس نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف۔ سخت دھوپ ،گرمی اورروزے کی حالت میں لوگ بالٹیاں اٹھائے پانی کے لیے بھاگ رہے ہیں ۔بچے اورعورتیں اس گھر کے دروازے پر لائنوں میں لگے ہیں جہاں خوش قسمتی سے کچھ پانی کاذخیر ہے۔ بہت سے  لوگ جنریٹروں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ۔ایک گھر میں جنریٹر ہے تو پورے گاؤں میں باری باری استعمال ہورہاہے۔صرف اس لیے تاکہ پانی جیسی بنیاد ی چیز میسر آجائے ،ورنہ سحری اورافطاری بھی پانی کے بغیر ہی کرنی پڑے گی۔
   سچ تویہ ہے کہ یہ صورتحال حکومت کی مکمل ناکامی کی علامت ہے۔رمضان میں حکومت کو روزہ داروں کی دعائیں لیناچاہییں تھیں،مگر اب گرمی کامارا،رات کاجاگا،دن کاتھکاہارا،ٹھنڈے پانی سے بھی محروم ہے تو کیوں دعادے گاان لوگوں کو جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ 
  بڑے بڑے دعوے ہیں ترقی اورخوشحالی کے مگر حکومت تین سالوں میں بجلی توبحال کرنہیں سکی ۔عوام کیامطمئن ہوں گے۔اورکچھ نہیں تو کم ازکم رمضان کے لیے کچھ پیش بندی کرلی جاتی مگر لگتاہے کہ رمضان سے پہلے ہی تمام محکمے عیدکی تیاری میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ہر کوئی عوام کی جیب سے پیسہ کھینچ کر اپنادھن بنا رہاہے۔ بجلی کے بل دیکھیں تو اتنے زیادہ کہ ہاتھوں کے طوطے اڑجائیں ۔ چھ بلب اورچارپنکھے ۔روزانہ بارہ تااٹھارہ گھنٹے بجلی بند مگر بل آرہاہے ،چار ہزارپانچ ہزار۔یہ تورعایتی بل ہیں ۔کبھی حساب پورالیناہوتاہے تویہ مہربان  دس سے بیس ہزارکابم بھی دے مارتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والانہیں۔ محکمہ بجلی کو بھی روزہ لگاہے۔ آخر ان لوگوں کو بھی سہولت ملنی چاہیے کہ رمضان میں انہیں تمام ذمہ داریوں سے چھٹی دی جائے۔
    یہ سب پریشانیاں اپنی جگہ مگر روزے پھر بھی رکھنے ہیں ۔ اللہ کاحکم ہے پوراکرناہے۔ مرتے مرتے کرناہے اورکرتے کرتے مرناہے۔ اللہ ہم سب کو ہمت دے کہ وہ گرمی کے روزے پوری ہمت اورجذبے کے ساتھ رکھیں۔ کوئی بھی مشکل کام ہو،مسئلہ اسے شروع کرنے کاہوتاہے۔ جب ہم نیت کرکے ،دل مضبوط کرکے ،آغا زکردیتے ہیں تو سمجھئے آدھا کام ہوجاتاہے۔ بس اب تسلسل باقی رکھناہوتاہے اوروہ الحمدللہ ہوہی جاتاہے۔ 
   رمضان میں پہلی بار گرمی نہیں ہورہی۔ جب سے روزے فرض ہوئے ہیں،تب سے ہر تیس سال بعد موسموں کاایک چکر پوراہوتا چلا آرہاہے۔ تیس سال پہلے روزے جون میں آئے تھے۔اب پھر جون میں ہیں ۔ اس وقت کے بچے آج بھرپورجوان ہیں، جوان آج بوڑھے ہیں مگر روزہ رکھنے والے روزہ رکھتے ہی ہیں۔ انہیں کوئی منع بھی کرے تونہیں رکتے۔
   ہمار ے استادگرامی شیخ القراء حضرت قاری محمدیاسین صاحب پانی پتی قدس سرہ نے گزشتہ سال ماہ دسمبر میں۸۰سال کی عمر میں وفات پائی ۔گزشتہ رمضان ان کی زندگی کاآخری رمضان تھا۔ اہلِ کراچی خوب واقف ہیں کہ ایساگرم رمضان شاید پہلے کبھی نہیں آیا۔ دوہزارسے زائد افرادگرمی سے جاں بحق ہوئے۔ ہسپتالوں میں اتنا رش تھا کہ وارڈز میں گنجائش ختم ہوگئی۔ ایمبولنسوں میں لائے گئے مریض وہیں ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔ ڈاکٹر ایمبولنسوں کی قطاروں کے چکر لگارہے تھے ۔ جنگ کے ماحول کاسماں تھا۔ دم توڑنے والوں کی کثرت کے باعث مردہ خانے لاشوں سے بھر گئے تھے ۔ہسپتالوںاور ایدھی کے سردخانوںمزید جگہ نہیں رہی تھی ۔شہر کے قبرستانو ں میںگنجائش ختم ہوگئی تھی۔ کتنی ہی جگہوں پر گورکنوں نے قبرکھودنے سے انکارکردیاتھا۔   
   اس شدت کی گرمی ،ہمارے حضرت قاری صاحب نہایت عمر رسیدہ اورسخت بیمار۔مگر اس حالت میں بھی وہ روزے سے تھے۔پورے رمضان میں مکمل روزے رکھے۔ ایک دن جو بہت ہی سخت گرم تھا،ان کی حالت غیر ہوگئی ۔مدرسے میں ہی بے ہوش ہوگئے۔ بیٹوں اورشاگردوںنے گھیرلیا۔ طبی امداددینے کے لیے منہ میں پانی ٹپکاناچاہاتو حضرت  کو ہو ش آگیا۔منہ کوسختی سے بندکرلیا۔ لاکھ کہاگیا ، منتیں کی گئیں کہ حضرت روزہ توڑدیں۔ مگر حضرت نے انکارکردیا۔ افطار کے وقت ہی منہ کھولا،پانی پیااوردوابھی لی۔ شروع کے چند روزے اس شدت کی حالت میں گزارے ۔پھر اللہ کاکرناہی یہ ہواکہ طبیعت ٹھیک ہوگئی۔ باقی روزے بڑے اطمینان سے رکھے۔  
  یہ توبڑوں اوربزرگوں کی بات تھی۔مگر رمضان میں وہ بچے بھی جنہیں ہم’’ شیطان‘‘ کہتے ہیں ،فرشتے اوراللہ والے بن جاتے ہیں۔ہر گھر میں جہاں روزوں کااہتمام ہوتاہے، ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ضدکرکے گرمی کے روزے رکھتے ہیں۔اگرنہ جگایاجائے تو اٹھنے کے بعد سارادن منہ بنائے رہتے ہیں۔ یہ کیاہے؟ایمان کی بہار نہیں تواورکیاہے۔ 
   ہماری امی یہ قصہ سناتی ہیں کہ قاری محبوب الٰہی(راقم کے بڑے بھائی) جب پانچ چھ سال کے تھے، تو وہ روزضد کرتے تھے کہ مجھے سحری میں اٹھانا ،روزہ رکھوں گامگر ہم یہ سوچ کر کہ بچہ ہے، کہاں روزہ رکھ سکے گا،سحری میں نہیں اٹھاتے تھے۔  ایک دن رات کو جب سونے کاوقت ہواتودیکھا کہ محبوب میاں اچھل اچھل کر الماری پر چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پوچھا:’’یہ کیا ہورہاہے ؟‘‘
کہنے لگے :’’ قرآن اتاررہاہوں۔‘‘
  امی کہتی ہیں کہ میں نے پوچھاکیاکرو گے۔‘‘ 
کہنے لگا:’’ا س پرہاتھ رکھواکرقسم لوں گا کہ مجھے سحری میں اٹھائیں گی۔‘‘
  ہم حیران رہ گئے ۔ پھر سحر ی میں اٹھاناہی پڑا۔ 
    اللہ کرے ہم ان بچوں سے سبق لیں ۔اپنے بزرگوں سے سبق لیں۔ روزے کو پوری لذت اور سرورکے ساتھ رکھیں۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ،ان کے مقابلے میں روزے کی سختی بھلاکیاسختی ہے۔ 
 الفت میں برابر ہے وفاہوکہ جفاہو
ہرچیز میں لذت ہے اگر دل میں مزاہو
    ٭٭
06-06-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter