Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

38 - 52
  ملا اختر منصور کاقتل…امریکاکی گھناؤنی سازش
  ۹۰ء کی دھائی کے آخر  میں جنگ زدہ افغانستان کے اکثر حصے پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی۔ایک طویل زمانے بعد راسخ العقیدہ مسلمانوں کی قائم ہونے والی یہ پہلی حکومت تھی۔ملامحمد عمر طالبان کے سربراہ منتخب ہوئے جنہوںنے کراماتی انداز میں افغانستان کے متحارب دھڑوں پر آناًفاناً غلبہ حاصل کرلیا۔ ان کی حکومت ’’طالبان امارتِ اسلامیہ ‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی اوروہ امیرالمؤمنین کہلائے۔ اس حکومت کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے مگر اس کے باوجود سادگی، کفایت شعاری اور کرپشن سے پاک نظام کو اپناکر مدرسے کے پڑھے ہوئے ان مولویوںنے اپنے مفتوحہ علاقوں میں مکمل امن وامان قائم کردکھایا۔افیون کی کاشت ،منشیات کی اسمگلنگ اوراسلحہ کلچر کاخاتمہ اس طرح کیاکہ دنیا حیرت میں ڈوب گئی۔معاشرتی جرائم برائے نام رہ گئے۔
   طالبان جدید دنیا کی سیاست سے واقف نہیں تھے۔انہیں جوڑ توڑ ،مکروفریب اورزیرِ زمین سازشوں کا کھیل نہیں آتاتھا۔ا س لیے وہ باربار دشمنوں کے دھوکے کاشکارہوئے۔ ان کی بہت بڑی افرادی قوت جنرل عبدالمالک جیسے عیاروں کی ستم ظریفی کی نذر ہوئی۔ دنیا بھر میں طالبان کے کوئی مددگار تھے ،تو وہ اہلِ پاکستان تھے۔ پاکستانی حکومت طالبان کی خیرخواہ تھی۔ پاکستان کواپنی جغرافیائی لحاظ سے پتلی کمر کو مضبوط کرنے کے لیے افغانستان میں دوست چاہیے تھے۔اپنی اسٹریجک کمزوری دور کرنے کے لیے اسے مشرقی و مغربی سرحدوں میں سے کم ازکم ایک سرحدپر مکمل امن درکارتھا۔ا س لیے ہماری یہ پالیسی رہی کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے تعاون کیاجائے۔ 
  مگر امریکا کوافغانستان میں امن منظور تھانہ وہاں پاکستان کے اسٹریجک مفادات کاتحفظ اسے قابلِ قبول تھا۔نائن الیون کے سانحے کوبہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کیاگیاتواس سلسلے میں پاکستان کے تحفظات کوقطعاً مدنظر نہیں رکھاگیا۔حکومتِ پاکستان کو مجبورکیاگیاکہ وہ اس جنگ میں امریکاکی غیرمشروط حلیف بنے۔ بصورتِ دیگر کھلی جنگ کی دھمکی دی گئی۔   
    افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے جو کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی ،وہ پاکستان مخالف عناصر پر مشتمل تھی۔افغانستان کی پختون بیلٹ کاپلہ جان بوجھ کرنئی حکومت میں نیچے رکھاگیا کیونکہ ان کی اکثریت پاکستان دوست تھی۔
    ملامحمد عمر روپوشی کی حالت میں ا مریکاکے خلاف مزاحمتی تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ آخرکار تین سال قبل ان کی وفات ہوگئی۔طالبان کے سرکردہ رہنماؤں نے ان کی موت کی خبر کوصیغۂ راز میں رکھا۔ ملامحمد عمر کی جگہ ان کے دستِ راست ملااختر منصور طالبان کی قیادت کرنے لگے۔گزشتہ سال مئی میں ملامحمد عمر کی وفات کی خبر منظر عام پر آگئی جس کے بعد ملااختر منصور نے اعلانیہ طورپر طالبان کی قیادت سنبھال لی۔
   وہ ۱۹۶۸ء میں پیداہوئے تھے۔ افغانستان پر روس کے حملے کے وقت وہ لگ بھگ بارہ سال کے تھے۔ اس جنگ میں انہیں شرکت کاموقع نہیں ملا مگر طالبان کی اٹھان کے وقت وہ ایک بھرپور اور باصلاحیت نوجوان تھے ۔ان میں قیادت کی غیرمعمولی صلاحیت تھی جس کی وجہ سے وہ بہت جلد طالبان کی صفِ اول کے لیڈروں میں شمارہونے لگے۔ وہ بردبار، وسیع النظر اوردوراندیش آدمی تھے۔ملا محمد عمر کی وفات کے بعد ان کی قیادت نے طالبان کومنتشر ہونے سے بچالیا۔وہ طالبان کی مرکزی قیادت کے خلاف اٹھنے والے داعش نوازبازوکو بھی دبانے میں کامیاب رہے۔ پاکستان کے بارے میں ان کاموقف لچک اورخیرخواہی پر مبنی تھا۔ وہ امریکاسے مذاکرات میں پاکستان کی شرکت اور پاکستان کے اسٹریجک مفادات کاخیال رکھنے کے قائل تھے ۔امید کی جارہی تھی کہ ان کی موجودگی میں امریکاسے ہونے والے مذاکرات ایک باعزت اورباوقار صلح پر منتج ہوں گے جس میں افغانستان کی خود مختاری ،غاصب افواج کی مکمل بے دخلی اورپاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت ہوگی۔
     مگر امریکہ کویہ پسند نہیں تھا۔امریکی حکومت افغانستان کی خودمختاری پر رضامند ہے نہ پاکستان کے کسی مفاد کی رعایت اس کے حاشیہ ٔ خیال میں آتی ہے۔امریکا نے گزشتہ چھ سالوںمیں جنگ کا منصوبہ بدل دیاہے۔ میدانِ جنگ میں فوجوں کولڑانے سے زیادہ اس کی توجہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے جنگ لڑنے پر ہے۔سی آئی اے کے گماشتے پاکستان اورافغانستان کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں اوران کاٹارگٹ ہر ایسی بااثر شخصیت کو خریدنا یاقتل کرناہے ،جو پاکستان اورافغانستان کے بارے میں امریکا کی استبدادی پالیسی سے اختلاف رکھتاہو۔
   امریکی جاسوس اوران کے زرخرید مقامی ایجنٹ شکاری کتوں کی طرح ایسے لوگوں کی بوسونگھتے پھرتے ہیں ۔مزاحمت کاروں کی قیادت ان کااہم ترین ہدف ہے اوروہ ڈرون حملوں کے ذریعے ہر ایسی جگہ پر بے دریغ میزائل داغ دیتے ہیں جہاں ہدف کا سومیں سے دس فیصد امکان بھی ہو ۔ ۲۰۰۴ء سے اب تک پاکستان کی حدودمیں ایسے ۳۹۱ حملے ہوچکے ہیں جن میں امریکاکومطلوب چند افرادکے علاوہ ہزاروں بے گناہ بچے ،بوڑھے اورخواتین جان بحق ہوچکے ہیں۔ ایبٹ آباد کے سانحے کے بعد پاکستانی حدود میں ملااخترمنصور کو حملے کانشانہ بنانا،امریکا کی لاقانونیت اورجبر واستبداد کی ایک تازہ مثال ہے۔ 
    ملااختر منصور کی شہاد ت پرامریکی صدر اوبامانے فخریہ طورپرکہاہے دہشت گردوں کوپاکستان میں محفوظ ٹھکانے نہیں دیے جائیں گے۔ امریکاکی اعلیٰ انتظامیہ نے یہ الزام بھی لگایاہے کہ ملااختر منصور مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ تھے،اس لیے انہیں حملے کانشانہ بنایاگیا۔ 
  مگر حقیقت یہ ہے کہ ملااختر منصور باوقار صلح کے حق میں تھے۔ مری میں مذاکرات کاسلسلہ اس کا ثبوت ہے۔ ہاں وہ امریکا کے تلوے چاٹنے پر کبھی آمادہ نہیں تھے۔ انہیں یہ بھی گوارانہیں تھاکہ پاکستان کومذاکرات سے باہر رکھاجائے۔وہ طالبان سے بالابالا بھی کسی سمجھوتے کو قبول کرنے پر رضامند نہیں تھے۔وہ ایسے حل کے بھی قائل نہ تھے جس میں موجودہ افغان حکومت کو بالادستی ہو۔  جبکہ امریکااپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو مسلط رکھتے ہوئے مذاکرات کے نام پر افغانستان اورپاکستان پر اپنی مرضی کاحل ٹھونسنا چاہتا ہے۔ ملامنصور اس میں رکاوٹ تھے۔ یہی ان کاجرم تھا۔
  امریکانے انہیں راستے سے ہٹا تودیا مگر اس کے بعد کیاوہ طالبان سے مذاکرات کی امید رکھے تویہ اس کی خام خیالی ہوگی۔ طالبان اب پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ میدانوں کارخ کریں گے اور امریکاکی مشکلات میں روزبروز اضافہ ہوتاجائے گا۔
    یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ امریکااورپاکستان کے تعلقات میں روزبروز سردمہری آتی جارہی ہے۔ ایف سولہ طیاروں کے قضیے کے بعد ملااختر منصور کی شہادت اس صورتحال میں مزید اضافے کاسبب بنے گی ۔امریکاکو چین کے تعاون سے شروع ہونے والی اقتصادی راہ داری بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ پاکستان کوبے دست وپااوراپنے رحم وکرم پردیکھناچاہتاہے۔ پاکستان کی ہر حکومت امریکاکے اس رویے کی شاکی رہی ہے۔ مگر اب پانی سرسے اونچاہوچکاہے۔ یہ ثابت ہوگیاہے کہ امریکی استعمار دنیا کابدترین استعمار ہے،جو کسی اصول یاضابطے کاپابند نہیں۔اسے صرف اپنامفاد عزیز ہے چاہے باقی ساری دنیا تباہ وبربادہوجائے۔
   ہمیں امریکا کے متعلق اپنی پالیسی ازسرنومرتب کرناہوگی۔ایک خود مختار اورآزاد قوم ہونے کاثبوت دیناہوگا۔اس معاملے پر حکومت ،فوج اوراپوزیشن کویکجاہوناہوگا۔ دینی وسیاسی رہنماؤں کوایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر نئی راہوں کاتعین کرناہوگا۔قومی یک جہتی ہی وہ راستہ ہے جو ہماری نسلوں کوامریکا کی ْغلامی سے حقیقی آزادی کی منزل تک لے جاسکتاہے۔ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter