Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

3 - 52
    موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث
  اکتوبر۲۰۰۵ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا۔ہزاروں عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے۔لاکھوں ہنستے بستے گھرانے بے گھر ہوگئے۔
    مجھے سردی اورکہر میں لپٹی ہوئی وہ راتیں آج بھی یا دہیں جب ہم متاثرین کی امدادمیں اپنا حصہ ڈالنے کراچی سے اسلام آباد اورپھر وہاں سے مانسہرہ، بالاکوٹ، بٹ گرام ، شانگلہ ،مظفر آباد اورباغ تک گئے ۔سردیاں شروع ہوچکی تھیں اورمتاثر ین کوخوراک کے بعدسب سے زیادہ ضرورت خیموں ، گرم کپڑوں ،کمبلوںاورلحافوں کی تھی ۔ایسی یخ بستہ راتوں میں جبکہ ہم اپنے گھروں میں ہیٹر لگاکر آرام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ غریب مفلوک الحال اور بے گھر لوگ ایک چادرنیچے پھیلا کراورپلاسٹک کے ٹکڑوں کوجوڑکر بنائی گئی شیٹ اوپر لے ٹھٹھرتے ہوئے پوری راتیں گزارتے ہیں۔
     مجھے یاد ہے کہ مری سے باغ جاتے ہوتے راستے میں ایک گاؤں کے پاس ہم رکے ۔ وہاں کے ایک قاری صاحب نے گاؤں کے باسیوں کے جو حالات بتائے وہ رُلادینے کے لیے کافی تھے۔امدادی ٹیمیں اب تک وہاں نہیں پہنچی تھیں۔راقم نے معمارٹرسٹ کواس کی اطلاع دی۔ اس طرح وہاں خیمے ،کمبل اوردوسری ضروری چیزیں پہنچائی گئیں۔دیگر امدادی ٹیمیں بھی ادھر متوجہ ہوئیں اوربہت سی انسانی جانیں ضایع ہونے سے بچ گئیں۔
    کراچی واپس آکر کوئی دو سال تک میں ان قاری صاحب سے فون پر رابطے میں رہا۔ تب تک اس گاؤں کے متاثرین خیموں ہی میں زندگی گزاررہے تھے ۔مکانات کی تعمیر اوربحالی کاکام اس وقت تک تکمیل کونہیں پہنچ سکاتھا۔
   دراصل زلزلے اورسیلابوں جیسے آسمانی حوادث آبادیوں کو اس طرح تہس نہس کردیتے ہیں کہ کسی بھی بستی کو بستے بستے سالہاسال لگ جاتے ہیں۔ متاثرین کو اپنے پاؤں پر کھڑاہونے میں ایک طویل وقت لگ جاتاہے۔شامتِ اعمال کی وجہ سے ہمار ے ملک کو گزشتہ دس بارہ سالوں میں پے درپے قدرتی آفات سے پالاپڑتارہاہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں اس وقت بھی بے شمارلوگ خیموں اورجھونپڑوں میں زندگی بسرکررہے ہیں۔اچھے مکانات کو بھی چند سالوں بعد مرمت کی ضرورت پڑجاتی ہے۔خیمے توپھر خیمے ہیں ۔پیوند لگالگاکر متاثرین ان میں سخت موسم کاکب تک مقابلہ کرسکتے ہیں۔ سردیاں ایک بارپھر سرپر ہیں اور ان سب لوگوں کوہماری توجہ اورمدد کی سخت ضرورت ہے۔
   انسانی ہمدردی اورخدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لینا شریعت میں کتنا محبوب عمل ہے ،اس کا اندازہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اورعمل سے بخوبی ہوتاہے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’جواپنے بھائی کی حاجت میں کوشش کرتاہے،اللہ اس کی حاجت روائی میں لگ جاتاہے۔‘‘{مشکوٰۃ}
 ایک روایت میںہے کہ ’’بیوہ اورمسکین کی ضروریات کے لیے بھا گ دوڑکرنے والاایساہے جیسا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔‘‘{الترغیب والترہیب}
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کسی مسلمان کوخوش کرناہے جیسے اس کی سترپوشی کرکے،اس کی بھوک مٹاکریااس کی کوئی اور ضرورت پوری کرکے{الترغیب والترہیب}
    حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نفلی اعتکاف میں بیٹھے تھے کہ کسی شخص نے آکرانہیں سلام کیااورخامو ش بیٹھ گیا۔حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا:’’بھائی کیابات ہے میں تمہیں پریشان اوررنجید ہ دیکھ رہاہوں۔‘‘
  اس شخص نے اپنی ایک سخت ضرور ت کاتذکرہ کیا۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اعتکاف چھوڑکراس کے ساتھ نکل پڑے۔ اس شخص نے اعتکاف چھوڑدینے پر حیرت ظاہر کی اورکہا :آپ اپنااعتکاف بھول گئے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا :نہیں۔مگرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ جوشخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت کے لیے چلے اوراسے پوراکردے،تواسے دوسال کے اعتکاف کااجر ملے گا۔ اورایک دن کے اعتکاف کااجر یہ ہے کہ اللہ بندے اورجہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردیتاہے جن کی چوڑائی زمین وآسمان کے فاصلے کے برابر ہوتی ہے۔{البر والصلۃ لابن جوزی}
  قارئین ! یہ ارشاداتِ نبویہ اورصحابہ کرام کایہ طرزِ عمل بتاتاہے کہ ہمیں اللہ کی نگاہوں میں اچھابننے ، اپنے گناہوں کوبخشوانے اورآخرت کابے شماروبے حساب اجرکمانے کے مسلمان بھائی بہنوں کی امداد اور تعا ون کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیناچاہیے ۔
   قدرتی آفات کے متاثرین کے علاوہ ہمارے آس پاس اڑوس پڑوس میں بھی مستحقین ہوتے ہیں مگر ہمیں ان کی خبر نہیں ہوتی۔ہزاروں لوگسفید پوشی کابھر م رکھے ہوئے ہیں مگر ان کے حالات اللہ ہی جانتاہے۔ ایک بار راقم شدید سردی کے ایام میں ایک عالم دین کے گھر گیا جودیکھنے میں بہت صاف ستھرا لباس پہنے ہوئے تھے ۔کوئی نہیں کہہ سکتاتھاکہ ان کے گھر میں کچھ کمی ہوگی۔ہم بیٹھک میں بیٹھے تھے کہ کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے ان کے ساتھ گھر کے اندرونی حصے میں جانا پڑگیا۔میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ گھر میں چارپائی تک نہیں تھی۔ اتنی سخت سردی میں ان کے چھوٹے چھوٹے بچے زمین پر سور ہے تھے۔نیچے معمولی سا بچھونا تھا اوراو پر بوسیدہ سااوڑھنے کاسامان۔ ایسے لوگ ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں۔ وہ اپنے حالات نہیں بتاتے مگر ان کا ایسی تکالیف کے ساتھ وقت کاٹناخود ہمارے لیے باعثِ شرم ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم دکھی انسانیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کواپنی زندگی کے اہم اورترجیحی مقاصد میں شامل کریں۔
٭٭
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter