اےطالبانِ علوم دین
مدارس ِ دینیہ میں تعلیمی سال کااختتام ہے ۔جگہ جگہ ختم بخاری شریف کی تقاریب منعقد ہورہی ہیں۔ فضلاء کی دستاربندی کی جارہی ہے۔چنددنوں بعدآ ج کے یہ طلبہ دورۂ حدیث کاامتحان دے کرکل کے علماء بننے والے ہیں۔ الحمدللہ ہر سال دینی مدارس سے ہزاروں طلبہ وطالبات علماء اورعالمات بن کرفارغ ہوتے ہیں ۔مدارسِ دینیہ کاکام یہاں ختم ہوتاہے اوراس کے بعدیہ انہی فضلاء اورفاضلات پر منحصر ہوتاہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی امانت کے ساتھ کس حدتک انصاف کرتے ہیں۔جو طلبہ تعلیمی زمانے میں محنت کرتے ہیں اوربعد میں اپنے اساتذہ کی نصائح کویاد رکھتے ہیں ،تجربہ گواہ ہے کہ ان سے دنیاکوبیش بہا علمی فائدہ پہنچتاہے۔ اس کے برعکس ہو تو نتیجہ بھی اچھانہیں نکلتا۔
یقینامدارس سے فراغت کے ان لمحات میں ایک تھکادینے والی مشقت سے آزادی کااحساس ہوتاہے مگر اس سے کہیں زیادہ جذبہ ولولہ اس بات کاہوناچاہیے کہ ہم اس علمی امانت کاحق اداکریں۔
شیخ المشائخ حضرت مولانامحمدیحییٰ مدنی صاحب رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے:
’’ہمیں تو مدرسے سے کچھ لوگ تیار کرنے ہیں، جن میں علم کا اثر ہو، جن کے اندر انقلاب آئے اور وہ دوسروں میں انقلاب پیدا کردیں اور دیے سے دیا جلتا جائے۔‘‘
راقم اپنے فضلاء بھائیوں سے اس موقع پر اکابر کے ارشادات کی روشنی میں چندگزارشات کرنا چاہتاہے۔عجب نہیں کہ کسی کوفائدہ ہوجائے جو ہماری نجات کاسبب بن جائے۔
(۱)بھائیو!اکابر کی میراث آگے پہنچانے کاعمل عنداللہمقبول بنانے کے لیے ہمیں اپنی نیت کو خالص رکھنا ہوگا۔ نیت میںملاوٹ سے مقصد بالکل فوت ہوجائے گا۔ہمیں یہ باربارسوچناچاہیے کہ آٹھ دس سال تک ہم نے علم کس لیے حاصل کیاتھا۔اساتذہ باربار ہمیں یاددلاتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے علم حاصل کرناہے۔ یہی ہمارے دلوں کا وجدان ہوگاتو ہم حقیقی علماء بن سکیں گے۔اگر ان علوم کو اس لیے حاصل کیا گیاتھا کہ ان سے دنیا میںشہرت حاصل کی جائے،اوراچھی آمدن کی راہیں ہموار کی جائیں، تو یقین جانیے اللہ پاک کی بارگاہ عالی میں ایساعلم ہرگزمقبولحیثیت نہیں رکھتا۔ایک دنیوی لائن کی تعلیم حاصل کرنے والے اور دینی مدرسے کی بگڑی ہوئی نیت رکھنے والے ’’طالب علم نما‘‘ میں پھر مقصد کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ ہاں! انجام کے لحاظ سے فرق ہے، وہ یہ کہ دنیوی لائن سے دنیا کمانے والا (بشرطیکہ فرائض وواجبات کاپابند اور کبائر سے احتراز کرتا ہو) آخرت میںنجات پاجائے گا جبکہ دین کی لائن سے دنیا بٹورنے والاشخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود ہو کر آخرت کے شدید عذاب کا حق دار ہوگا، آپ سب نے وہ حدیث بارہا پڑھی ہے جس میں ریا کار عالم ،ریاکا ر مجاہد اور یار کار سخی کا انجام مذکور ہے کہ ان تینوں کو بلا کر باز پرس کے بعد یہ کہہ کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا کہ تم نے یہ عظیم اعمال محض اس لیے کیے تھے کہ دنیا والے تمہیں عالم، مجاہد اور سخی کے القاب سے نوازیں ، تم اپنا حصہ دنیا میں پاچکے ہو، یہاں تمہارے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام بد سے محفوظ رکھے۔
(۲)بھائیو!اس وقت امت کو سب سے زیادہ ضرورت اتحاد کی ہے۔ہماری ساری ناکامیوں کی جڑ انتشاراورکھینچاتانی ہے۔ اگر اُمت کے علماء ،اہلِ باطل کے مقابلے میں مشترکہ اہداف پر جمع رہیں تو ہم سالوں کافاصلہ مہینوں میں طے کرسکتے ہیں۔اتحاد واتفاق کی بہترین صورت کیا ہے۔ اس بارے میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ دلوں کا مالک درحقیقت اللہ جل شانہ ہے۔ دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے، کسی جماعت کے قلوب میں محبت ومودت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کاانعام صرف اس کی اطاعت وفرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ۔معصیت ونافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا، اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم تنظیم واتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبردای کو اپنا شعار بنالیں۔ ( تفسیر معارف القرآن، ج:۲ص: ۱۳۵)
آج تمام مسلمانوں کو دنیا میں زندہ رہنے کے لئے سانس کی مثل اتحادو اتفاق کی ضرورت ہے، خصوصاً دیندار طبقہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد واتفاق کی فضا قائم کے۔ قرآنِ کریم کے ارشادات سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی بنیاد ’’احکام شرعیہ پر مکمل عمل کرنا ہے۔‘‘ دوسری کوئی صورت نہیں، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اتفاق کے ولایتی یا گھریلو ساختہ من گھڑت نسخوں پر اپنا سرکھپانے اورانہیں آزمانے کی بجائے قرآن کریم کے بیان کردہ ’’’شاہی نسخوں ‘‘کو آزمائیں اور باہمی ’’اتحاد واتفاق‘‘ قائم کرنے کے لئے اللہ کی تمام نافرمانیوں کو چھوڑدیں۔
(۳)ہم نے مدارس میں جو کچھ حاصل کیاہے، اس پر ہمیں ہمیشہ اللہ کاشکر اداکرناچاہیے۔افسوس کہ ہمارے بہت سے بھائی جب مدارس سے نکلتے ہیں تو اہلِ دنیا کی چمک دمک دیکھ کر مرعوب ہوجاتے ہیں اوراپنی محنت کولاحاصل تصور کرتے ہیں۔حضرت مولانامحمدیحییٰ مدنی صاحب رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے:’’آج کسی کالج والے سے پوچھئے کہ کیا پڑھا ہے؟ تو سینہ تان کر بولے گا ، انٹرمیڈیٹ میں یا بی اے، بی ایس سی میںہوں اور درس نظامی کرنے والے سے پوچھئے تو یوں مری ہوئی آواز میں کہے گا ’’درس نظامی کر رہا ہوں، مولوی بن رہا ہوں، حافظ بن رہا ہوں۔‘‘ جیسے کوئی گناہ کررہا ہو۔ اگر ایک عالم اورایک حافظ اپنے آپ کو دنیا کے دوسرے تما م نعمت یافہ لوگوں سے زیادہ خوش قسمت نہیں سمجھتا تو اس نے اس نعمت قرآن کی سخت ناقدری کی ہے۔‘‘
پس ہمیں کبھی بھی دنیوی لائن والوں کے سامنے احساسِ کمتری نہیں ہوناچاہیے۔
(۴)ہماری ذمہ داری ہے کہ مدارس سے نکل کردین کی محنت کوترجیح دیں اور کسبِ معاش میں قناعت اوربقدرِ ضرورت پر کفایت کریں ۔کیونکہ خواہش اورآرزوکی توکوئی حدنہیں۔
مسلمہ بن عبدالملک ایک بارنمازِ فجر کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیز کے خلوت خانے میں حاضر ہوئے جہاں کوئی اور شخص داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک لونڈی صیحانی کھجور کا تھال لائی جو حضرت عمربن عبدالعزیز کو بہت مرغوب تھیں ، آپ نے دونوں ہاتھوں سے چند کھجوریں اٹھائیں اور فرمایا: مسلمہ! اگر کوئی شخص ان کو کھا کر پانی پی لے کیونکہ کھجور پر پانی پینا بڑااچھا رہتا ہے تو کیا خیال ہے رات تک کے لئے کافی ہوں گی؟ مسلمہ نے عرض کیا :’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ پھر اس سے کچھ زیادہ اٹھا کر فرمایا :’’اور اتنی؟‘‘عرض کیا :’’ہاں امیر المومنین! اس سے کم بھی کافی ہوسکتی ہیں اور اتنی کافی کہ ان کے بعد پھر کسی اور کھانے کی ضرور نہیں رہے گی۔‘‘ فرمایا:’’ پھرلوگ کس لئے آگ میں داخل ہوتے ہیں۔‘‘
مسلمہ کہتے ہیں:’’ یہ نصیحت مجھے جتنی کار آمد ہوئی ، کبھی کوئی نصیحت کار آمد نہیں ہوئی۔‘‘
یہ امت مسلمہ کے ایک حکمران کے حالات ہیں کہ صرف کھجور اور پانی پر اکتفا کرنا کافی سمجھا۔پھر اللہ نے ان سے جوکام لیا وہ دنیا آج تک یادکرتی ہے۔ہمیںایسے واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ معیارِ زندگی کو بلند سے بلند تر رکھنے کی کوشش اور جستجو کرنے سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم کفایت شعاری، اصول پسندی اور سلیقہ مند ی سے زندگی گزار نا سیکھیں۔ مدرسہ ہو یا گھر ہر جگہ کفایت کے اصول کو مد نظر رکھ کر ہم بہت کچھ سہولیات اور بے پناہ سکون حاصل کرسکتے ہیں۔ آج سے اس بات پر عمل پیرا ہو کر دیکھیں، ان شاء اللہ فائدہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
دوستو! یہ چند نصیحتیں تھیں جو آپ سے عر ض کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم مدارس سے فارغ ہونے کے بعد بھی اصل مقصد کی طرف پورے طور پر متوجہ رہیں۔اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا، اس کی مرضیات سے دوسروں کو آگاہ اورنامرضیات سے خبردارکرنا،یہی تو ہمارا اصل مقصد ہے۔