Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

32 - 52
احتساب کی ضرورت
    احتساب کسی بھی قوم کی زندگی اورنمو کے لیے ایساہی ضروری ہے جیسے کسی گلستان کواجڑنے سے بچانے کے لیے وہاں کیڑ ے مار ادویات کاچھڑکاؤ۔احتساب نہ ہوتو مقتدر لوگ بزعمِ خود خدابن جاتے ہیں ۔عدل وانصاف کو منہ چھپاناپڑتاہے۔ بدعنوانی اورلاقانونیت کادور دورہ ہوتاہے۔شریف لوگ دب جاتے ہیں اوربدقماش لوگوں کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔معاشرے میں جنگل کا قانون نافذ ہوتاہے۔ ہر جگہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل ہوتاہے۔ 
  ناانصافی اوراستبداد کی اس فضا میںکچھ کچلے ہوئے مظلوم لوگ،ردعمل پر اترآتے ہیں ۔وہ بڑوں کوقانون سے بالاتر دیکھ کر خود بھی قانون شکنی پرآمادہ ہوجاتے ہیںاورنتیجتاً چور،ڈاکو،قاتل، رہزن اوردہشت گرد بن جاتے ہیں۔سرکاراورسرکاری اہلکا روں سے ان کی ٹھن جاتی ہے۔بہت سے مجرم گرفتارہوتے ہیں،بہت سے مارے بھی جاتے ہیں ،مگر یہ ’’جرم پرور فضا ‘‘ہر روز نئے مجرموں کوجنم دیتی رہتی ہے۔ اس طرح کبھی بھی امن قائم نہیں ہوپاتااوروہ معاشرہ جس میں کچھ مقتدرلوگوںنے تاج محل کھڑے کرکے اسے اپنے لیے جنت سمجھ لیاتھا، بہت جلد جہنم کانمونہ بن جاتا ہے۔ 
  اس معاشرتی مرض کاایک ہی علاج ہے ۔و ہ یہ کہ قانون کانفاذ سب پر ہو،بلاامتیازہواوراس میں کسی مصلحت یا تعلق کوخاطر میں نہ لایاجائے۔ درحقیقت معاشرے کے سیاسی اداروں کے قیام کی وجہِ جوازہی یہ ہے کہ وہ بلاامتیاز لوگوں کوانصاف مہیاکرے۔دنیاکے ہر معاشرے کاالمیہ یہ رہاہے کہ وہاںعام لوگوںکو دبایااورکچلاگیااوران کے خون پسینے سے تعمیر کردہ قلعوں اورایوانوں میں مفاد پرست سیاست دان اپنے خزانے بھرتے رہے۔اگر تاریخ نے کبھی اس سے ہٹ کرکوئی جھلک دیکھی بھی تووہ عارضی تھی جس میںکوئی منصف مزاج فرد اتفاقی طورپر اقتدار میں آگیا مگر وہ دنیاکو کوئی مربوط منصفانہ نظام نہ دے سکا۔
   اگرایک مکملاورآئیڈیل منصفانہ معاشرے کی حقیقی تصویرہمیںملتی ہے تو مدینہ منورہ کی اس ریاست میں،جس کی بنیاد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی ۔سیرتِ نبویہ انصاف کی بالادستی اوربے لاگ احتساب کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔یہ واقعہ توسبھی نے سنااورپڑھاہے کہ ایک معزز خاندان کی عورت نے چوری کی ۔اس کے قبیلے والے بے عزتی اورسزاسے خوفزدہ ہوگئے،سوچنے لگے کہ رسول اللہ  ﷺ سے کون سفارش کرے؟ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے چہیتے تھے۔انہیں سفارشی بنایاگیا۔انہوںنے آپ ﷺسے اس بارے میں عرض معروض کی تو رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد میں سفارش کرتے ہو؟‘‘پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا جس میں فرمایا : اسی چیز نے تم سے پہلے لوگو ں کو ہلاک کیا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی معز ز اور طاقتور شخص چوری کرلیتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی ضعیف اور کمزور آدمی چوری کرتا تو وہ اس  پر بے حد قائم کردیتے تھے‘اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد  ﷺ بھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔(بخاری ومسلم)
یہ تھااسلام کے احتساب کا وہ معیار جس نے اسلام کی پہلی ریاست کوایسا مضبوط ،متحداورمستحکم کیا کہ چندبرسوں میں مٹھی بھرمسلمان دنیاکی ان عالمگیر سلطنتوں پر غالب آگئے جو ظلم وجبر کے نظام پر قائم تھیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلے خطبے سے اسلام کے اس مزاج کااچھی طرح اندازہ لگایاجاسکتاہے جس میں مظلوم کی حمایت اورظالم کی سرکوبی کو ریاست کے سب سے ترجیحی مقاصد میں شمارکیاگیاہے۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا:
’’قوم کا معمولی آدمی میرے نزدیک اُس وقت تک سب سے اہم ہے جب تک میں اسے اُس کا حق نہ دِلوا دوں … قوم کا طاقتور فرد میرے نزدیک معمولی ہے، جب تک میں اُس سے مظلوم کا حق وصول نہ کرلوں…‘‘
ان الفاظ میں اس حقیقت کوآشکارکیاگیاہے کہ حکمران کااہم ترین ہدف متوسط اورغریب طبقہ ہوناچاہیے ۔کیونکہ اکثریہی لوگ مظلوم ہوتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے ساتھ اوّ ل توکوئی زیادتی کرتا نہیں۔ اوراگرایساہوتابھی ہے توایسے لوگوں کوکسی حکومت ،عدالت یاقانون کے محافظ اداروں کی عموماً ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہ خودبدلہ لینے پر قدرت رکھتے ہیں اوراکثر ایساکرکے بھی دکھادیتے ہیں۔ پھربھی اگر وہ قانونی ذریعہ اختیارکرناچاہیں تو ان کے اثرورسوخ کی بنا ء پرانہیں گھر بیٹھے انصاف دلادیاجاتاہے۔مسئلہ تونچلے طبقے کاہے جوتاریخ کے ہر دورمیں انصاف سے محروم چلے آئے ہیں۔
   اس وقت ملک میں انصاف اوراحتساب کی بات ہورہی ہے۔کرپٹ  شخصیات کو عدالت میں لانے کی آوازیں لگ رہی ہیں۔اسی دوران افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کوہاٹ کے دورے کے موقع پر اپنے خطا ب میں کہاکہ پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے لیے ہرسطح پر بلاامتیاز احتساب ناگزیر ہے۔ملک میں امن واستحکام کرپشن کے خاتمے پرمنحصر ہے۔کرپشن ختم کیے بغیر دائمی امن قائم نہیں ہوسکتا۔
    یقینا انصاف، اوراحتساب ،ہمارے لیے سانس کی طرح ضروری ہے۔بلاشبہ کرپٹ شخصیات کوکسی قسم کی سیاسی،گروہی،علاقائی،لسانی یاصوبائیتفریق کے بغیر محاسبے کے عمل سے گزارناہوگا۔ جنرل صاحب کے یہ خیالات نہایت خوش آئند ہیں۔مگر آج تک دیکھایہی گیاہے کہ احتساب کی آوازیں کچھ دنوں تک سرخیوں پر رہ کر پھر کسی اورہنگامے یامصلحت کی نذرہوجاتی ہیں۔اللہ کرے کہ جنرل صاحب کی سوچ کوعملی جامہ بھی پہننا نصیب ہواورکسی قسم کی مصلحت اس فکرمیں دامن گیر نہ بن سکے۔
25-04-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter