Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

19 - 52
کشمیر کاالمیہ
قدرتی حسن ورعنائی سے مالامال خطۂ کشمیر کواستحصال اوراستبداد کے بے رحم پنجوں میں سسکتے ہوئے دو صدیاں پوری ہوچکی ہیں۔یہ سرزمین جس نے کبھی محمود غزنوی کی فوجِ ظفر موج کی قدم بوسی کی ،کبھی اکبر اور جہانگیر جیسے فاتحین کو خوش آمدید کہا ،ایک طویل مدت سے اپنے نجات دہندہ کے انتظار میں ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جوبرصغیر کے بارباربیرونی فاتحین کے قدموں تلے روندے جانے کے باوجود ، اکثر محفوظ اورمامون رہا۔ سکندراعظم اس کی سرحدوں کو چھو کرواپس ہوگیا۔محمود غزنوی بھی اس کے سرحدی قلعے لوہ کوٹ سے آگے نہ بڑھ سکا۔چنگیز خان کے لشکر اسے عبورکرکے منگولیاجانے کی ہمت نہ کرسکے اوروسطِ ایشیا کی طرف مراجعت پر مجبور ہوئے۔بابر بھی کلرکہار سے ہندوستان کے میدانوں کی طرف مڑگیا۔نادرشاہ درانی نے دہلی کوپامال کرنے کے باوجودکشمیر سے کوئی سروکارنہیں رکھا۔
  کشمیر میں اسلام کی اشاعت مسلم صوفیائے کرام کی مرہونِ منت ہے جبکہ وہاں سیاسی میدان میں مسلمانوں کے غلبے کاسہرااُن ترک امراء اورسپاہ کے سرہے جنہیں کشمیر کے ہندوراجاؤںنے اپنی فوجوں میں بھرتی کیاتھا۔ ان میں سے بعض ترک اپنی صلاحیتوں کی بناء پر سپہ سالاری اوروزارت کے درجے پر پہنچ گئے تھے۔ایسے ہی ایک امیر شاہ مرزاسواتی نے،جو راجا سنہہ دیوکاوزیررہ چکاتھا، 735ھ (1335ء) میں پہلی بار کشمیر میں ایک آزاد مسلم حکومت قائم کی۔ اس نے شمس الدین کالقب پسند کیا۔وہ مذہبی تفریق کے بغیر ہندواورمسلمانوں سے یکساں برتاؤ رکھتاتھا،اس لیے اس کی حکومت کے قدم بہت جلد مستحکم ہوگئے۔مرزاشاہ سواتی کاپوتا سکندر ایک مذہبی آدمی تھا۔اس کے دربار میں علماء وفضلاء کی کثرت تھی۔اس نے ہندؤوں سے جہاد کرکے مزید علاقے بھی فتح کیے ۔جہادی مہمات کے باعث اسے بت شکن کہہ کریاد کیا جانے لگا۔سکندر کے بیٹے زین العابدین کوطویل اورپُرامن دورِ اقتدارنصیب ہواجسے کشمیر کی مسلم حکمرانی کاعہدِ زریں بھی کہاجاتاہے۔اس کے بعد کچھ مدت تک یہاں چک خاندان نے بھی حکومت کی۔ اپنااثر ورسوخ بڑھاکروہ کشمیر کے مختلف حصوں پر قابض ہوگئے اورشاہ مرزاخانوادے کااقتدار قصۂ پارینہ بن گیا۔ کشمیر کے سیاسی بحران کودیکھتے ہوئے مغل حکمران اکبر نے چک خاندان کوباج گزاربننے پر مجبورکردیا۔اس خاندان کے آخری حکمران اکبر کے تابعدار تھے۔کچھ عرصے بعد کشمیر کوباقاعدہ مغل حکومت کاصوبہ بنالیاگیااور چک خاندان کادورِ اقتدار اختتام پذیر ہوگیا۔کشمیر پر مغلوں کی حکومت لگ بھگ دوصدیوں تک قائم رہی۔اس دوران یہاں اسلام کی اشاعت بھی جاری رہی۔یہاں اکثر لوگ کاشت کارتھے ۔مسلمان حکمرانوںنے ان سے ایسااچھاسلوک کیاکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔صرف برہمن ذا ت کے ہندواپنے قدیم مذہب سے چمٹے رہے۔
   مغل حکمران اس حسین وادی کے عاشق رہے۔ جہانگیر اپنی تزک میں کشمیر کاذکر بڑے والہانہ اندا ز میں کرتاہے۔وہ اپنے دورِ حکومت میں متعددبارکشمیر کی سیر کے لیے آیا۔ڈل جھیل کے کنارے اس کا لگایا ہوانشاط باغ آج بھی اس کی یادگارہے۔ نورجہاں کے کہنے پراس نے ایران سے چناروں کے پیڑ منگواکر کشمیر میں لگائے جن کی اس قدر کثرت ہوئی کہ وہ اس وادی کازیورشمارہونے لگے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی نے مغلوں کوکشمیر سے بے دخل کرکے یہاں درانی افغانوں کی حکومت قائم کردی۔ درّانیوں کے دورِ زوال میں پنجاب میں رنجیت سنگھ سکھوں کاسب سے بڑارہنما بن کرابھرا۔پنجاب فتح کرنے کے بعد ۱۸۱۶ء میںاس نے افغانوں سے کشمیر بھی چھین لیا۔ یہاں سے کشمیر ی مسلمانوں کے مصائب کی وہ سیاہ رات شرو ع ہوئی جس کی صبح آج تک نہیں دیکھی گئی۔سکھ گورنر ہری سنگھ کشمیری مسلمانوں پر عذاب کی طرح نازل ہوا۔سکھوں کایہ اقتدارتین عشروں تک رہا۔ اس دوران مسلمانوں کی حیثیت حیوان کی سی تھی ۔انہیں باجماعت نماز اداکرنے تک کی آزادی نہیں تھی۔ سکھ قانون میں ان کے قتل پر چند روپے جرمانے سے زیادہ کوئی سزانہ تھی۔ 
  اسی زمانے میں ڈوگراخاندان کے تین افسران گلاب سنگھ،دھیان سنگھ اورسوچیت سنگھ سکھوں کے ہاں کشمیرمیں اہم عہدوںپر فائز رہے۔ڈوگراخاندان کشمیر ی نہیں بلکہ راجپوت ہندوتھا۔۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد کشمیر میں انہی ڈوگرہ برادران کااقتدار قائم ہوگیا۔گلاب سنگھ نے انگریزوں کولاکھوں اشرفیاں رشوت دے کر اپنے رقیبوں کو سیاسی منظرنامے سے باہر کردیااوران سے معاہدہ امرتسر۱۹۴۶ء کے تحت پورے کشمیر کے اقتدار حاصل کرلیا۔گلاب سنگھ کے دورمیں کشمیری مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ ان کاجی بھر کے سیاسی ومعاشی استحصال کیاگیا۔کوئی عدالت نہ تھی جہاں ان کی شنوائی ہوتی۔تمام عہدے کشمیری پنڈتوں اورڈوگروں کو دے دیے گئے۔مسلمان زمین داروں پر ناقابلِ برداشت ٹیکس عائد کرکے انہیں قلاش کردیاگیا۔۱۸۵۷ء میں گلاب سنگھ کی موت کے بعد اس کے جانشین اس سے بڑھ کرمسلمانوں کے لیے ظالم ثابت ہوئے۔ ۱۹۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیر میںبارہ لاکھ پچانوے ہزارنفوس تھے جن میں مسلم آبادی ۹۴فی صد تھی ۔پانچ فی صدسے کچھ زیادہ   ہندوپنڈت تھے۔ ایک فی صدسے بھی کم آبادی سکھ تھی۔
قیام پاکستان کے وقت اہلِ کشمیر کو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی حیثیت سے کشمیر کے پاکستان سے الحاق کایقین تھا۔کشمیر میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم بھی لہرادیے گئے تھے مگر کشمیر کے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ نے عوامی امنگوں پر پانی پھیرتے ہوئے بھارت سے الحاق کااعلان کردیا۔ اس اعلان کے پیچھے برطانوی سیاست دانوں کی ایسی بھیانک ساز ش کارفرما تھی جس  نے اس خطے کاامن مستقل طور پر تہہ وبالاکردیا۔
  کشمیر کامسئلہ آج تک اسی شدت سے قائم ہے۔ کشمیری مسلمان آج بھی اسی طرح اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھارہے ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کے جذبۂ حریت کی حالیہ لہر بھارتی مظالم کاردعمل ہے۔کشمیری مسلمانوں کودبانے کے لیے وضع کردہ بدنام زمانہ کالے قوانین عدل وانصاف کے نام پردھبہ ہیں جن کے تحت ہزاروں کشمیر ی نوجوانوں کوبلاجوازہلاک اور غائب کیاجارہاہے۔وادی میں گزشتہ کئی روز سے سیکورٹی فورسز ان بے گناہ مسلمانوں پر کھلے عام تشدد کررہی ہیں جو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آنے پر مجبورہوئے ہیں۔
   کشمیریوں کاخون بھارتی حکمرانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ احتجاج کی موجودہ لہر نے مودی کوہلادیاہے اوردہلیمیں اعلیٰ سطحی اجلاس ہندونیتاؤں کی بوکھلاہٹ کاثبوت ہے۔پاکستان کے آرمی چیف نے بھی اس صورتحال کابروقت نوٹس لیتے ہوئے کشمیر ی مسلمانوں پر ظلم وتشدد کی مذمت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری سے بجاطورپراپیل کی ہے کہ وہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کانوٹس لے اوروہاں قیام امن میں اپناکرداراداکرے۔ پاکستان کاموقف اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارردادکے مطابق حل کیاجائے۔ 
   کشمیر کی طرح مسلم اُمہ کے کئی مسائل مدتوں سے لاینحل ہیں۔ ان کے حل ہونے کاایک ہی طریقہ ہے ۔وہ یہ کہ اُمت متحد ہوجائے۔اگر زیادہ نہیں توکم ازکم پاکستان ،بنگلہ دیش،سعودی عرب، عرب امارات،ترکی مصر اورسوڈان جیسے چند بڑے مسلم ممالک بھی ایکاکرلیں توہم اپنی طاقت کالوہامنواسکتے ہیں اورمصیبت زدہ مسلمانوں کی شبِ غم سمٹ سکتی ہے۔    

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter