جنید جمشید کی رحلت
اس سرد شام جبکہ میں اپنے کمرے میں مصروفِ مطالعہ تھا،گھر کے بچوں نے اطلا ع دی :
’’حویلیاں کے قریب ایک جہاز گراہے۔لوگ کہہ رہے ہیں ،اس میں بھائی جنید جمشید بھی تھے۔‘‘
میں دھک سے رہ گیا،لگا پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے۔ ہمارے گھر کے بالکل چھوٹے اور معصوم بچے بھی بھائی جنید جمشید کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ان کی یہ پسندیدہ تفریح ہے کہ انہیں کمپیوٹر پر جنید جمشید کی آوازمیں ’’یا طیبہ یاطیبہ‘‘…’’دل بدل دے۔‘‘ …’’الٰہی تیری چوکھٹ پہ بھکاری بن کے آیا ہوں۔‘‘سنایاجائے۔نہ صرف ہمارے ملک بلکہ پوری دنیا کے کروڑوں بچے ،بوڑھے ،جوان، مرد اورخواتین بھائی جنید جمشید کی آواز کے مداح تھے۔
ان کی آواز کاایک دور وہ تھا جومولاناطارق جمیل صاحب سے ان کے تعلق سے پہلے کاتھا۔اس کا رُخ کچھ اورتھا۔اس وقت بھی ایک دنیا ان کی پرستار تھی۔ بھائی جنید جمشید نے متعددباراپنے تبلیغی بیانات اوردوستوں سے گفتگو میں اس دور کے واقعات سنائے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہ عزت وشہرت کے عروج تک پہنچنے کے باوجود اندرایک تشنگی سی تھی۔ ایک بار انہوںنے بتایا کہ شوبز کے ایک بین الاقوامی پروگرام میں انہیں بیرونِ ملک مدعو کیا گیا۔ عظیم الشان ہوٹل تھا جس میں بہترین کمر ے تھے مگر سب سے شاہانہ کمرہ ایک نامور انڈین اداکار کاتھا،جس کے دروازے پر موٹے حروف میں اداکارکانام آویزاں کردیاگیاتھا۔جنید جمشید کہتے تھے کہ اس اداکارکایہ اعزاز دیکھ کرمجھے خیال آیاکہ کبھی میںبھی اس مقام پر پہنچ سکوں گاکہ میرے لیے ایسا ہی شاہانہ کمرہ بک کیاجائے۔
اس کے بعد حیرت انگیزانکشاف کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ چندہی سالوں کے اندر میں موسیقی کی دنیا میں اس مقام پر پہنچ گیاکہ مجھے اسی ہوٹل میں مدعوکرکے وہی شاہانہ کمرہ دیاگیااوراس کے باہراب میرانام بھی آویزاں تھا۔
مگر جنید بھائی خود بتاتے تھے کہ عزت وشہرت کے انتہائی مقام پر پہنچ کربھی میں اندرسے مطمئن نہ ہوسکا۔ عدم اطمینان کی یہ حالت ایک مدت تک برقراررہی،تبدیلی اس وقت آئی جب خوش قسمتی نے انہیں تبلیغی جماعت سے ملادیا۔ مولاناطارق جمیل صاحب نے اس نوجوان پر خصوصی توجہ دی ۔ یوں جنید جمشید کی زندگی کارُخ بدلنے لگا۔ان کے چہرے پر سنت کی بہار کے آثار دکھائی دینے لگے۔یہ ۲۰۰۲ء کی بات ہے۔
ان کی زندگی میں تبدیلی نے ان کے بے شمار مداحوں کوحیران کردیا۔ ۲۰۰۴ء میں انہوںنے گلوکاری بالکل چھوڑدی۔شوبز کی چمک دمک کو یکسرخیرباد کہہ دیا۔یہ فیصلہ کرتے وقت ان کی عمر۴۰سال تھی ۔وہ اپنے کیرئیر کے عروج پر تھے۔بظاہران کے سامنے ساری زندگی پڑی تھی ۔وہ سوچ سکتے تھے کہ نیک کاموں کے لیے بہت وقت ہے۔ابھی چند سال دنیا کے جو مزے لے سکتاہوں لے لوں۔پچاس ساٹھ سال کاہوکر دین داری کی فکر کرلوں گا۔
مگرجب فکرِ آخرت غالب آجائے توانسان کوصحیح فیصلے کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ جنیدجمشید نے ایساہی کیا۔ شہرت اوردولت کے عروج پر ہوتے ہوئے اس رنگیلی دنیا سے منہ پھیر لیا۔ان کے پرانے ساتھی بہت ناراض ہوئے۔ خصوصاً ان کے بینڈ کے شرکاء۔شعیب منصور نے پوری کوشش کی کسی طرح اپنے اس ہیروکوواپس لایاجائے مگر جنید جمشید نے اب ایمان کی حلاوت کامزاچکھ لیاتھا۔ انہیں وہ دلی سکون مل گیاتھا جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ اب وہ واپس کیسے آتے۔ جنید جمشید کی اس حالت پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد صادق آتاہے:
تین صفا ت ایسی ہیں وہ جس میں ہوں وہ ایمان کی حلاوت پالے گا۔اللہ اوراس کارسول اسے تمام ماسواسے زیادہ محبوب ہوجائیں۔وہ کسی بندے سے فقط اللہ کے لیے محبت کرے۔اسے کفر کی طرف لوٹناایساہی ناگوارہوجیساکہ آگ میں جھونک دیاجانا۔(بخاری کتاب الایمان)
جنید بھائی اس وقت سخت مالی مشکلات کاشکارتھے۔شوبز اورتشہیر کے جن اداروں سے کنٹریکٹ ہوچکاتھا ،یہ لائن یکدم چھوڑدینے سے وہ ان سب کوجواب دہ تھے۔ مگراللہ نے انہیں اس مشکل سے نکال لیا۔کیونکہ اسی کاارشاد ہے:’’جواللہ سے ڈرتاہے ،وہ اس کے لیے نجات کی شکل بنا دیتا ہے ۔ ‘‘ (الطلاق )
جنیدبھائی نے اپناکاروبار شروع کردیا۔بظاہر ان کی آواز خاموش ہوگئی تھی مگر اللہ نے اس نوجوان سے مردہ دلوں کی مسیحائی کاکام لینے کافیصلہ فرمالیاتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے اسباب بن گئے کہ ان کی مسحورکن آواز حمد ونعت کی شکل میں ڈھل گئی۔۲۰۰۵ء میں ان کاپہلا مجموعۂ نعت ’’جلوۂ جاناں‘‘ منظر عام پرآیا توہر طرف ایک دھوم مچ گئی ۔ حضرت شاہ حکیم محمداختر صاحب رحمہ اللہ جیسے ولی ٔ کامل کی محفل میں انہیں نعت سنانے کی سعادت ملی اورحضرت رحمہ اللہ نے دادوتحسین اوردعاؤں سے نواز اجو ہزار تمغوں سے بڑھ کراعزازتھا۔ جنید بھائی کوہر طرف سے محبت ملنے لگی ،ایسی کہ باید وشاید۔حمد ونعت کے پروگراموں کے علاوہ وہ ایک تسلسل کے ساتھ تبلیغی اسفار کرتے رہے۔ ان کا آخری سفر بھی چترال میں تبلیغ ہی کے لیے تھا۔ اسی سفرمیں انہیں شہادت نصیب ہوئی۔خوش نصیب تھے وہ کہ اپنی زندگی کے حقیقی مقصدکو سمجھ کر دونوں جہاں کی کامیابی کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلے اوراسی میں اپنی جان دے دی۔
وہ چلے گئے مگر وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کی مدھر،رسیلی ،سریلی آواز حمدونعت کی شکل میں دکھی دلوں کی مداوات کرتی رہے گی۔
07-12-2016