(٤٨٩) ویجلس بین کل ترویحتین مقدار ترویحة ) (٤٩٠) ثم یوتربہم ) ١ ذکرلفظ الاستحباب والاصح انہا سنة کذا روی الحسن عن ابی حنیفة لانہ واظب علیہا الخلفاء الراشدون
ہے کہ تراویح میں دو رکعت پر سلام پھیرے ، جس سے معلوم ہوا کہ تراویح دو دو رکعت ہے ۔
ترجمہ: (٤٨٩) اور ہر دو ترویحوں کے درمیان ایک ترویحہ کی مقدار بیٹھے ۔
تشریح : دو ترویحہ آٹھ رکعتیں بنتی ہیں ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہر چار رکعتوں کے بعد تھوڑی دیر بیٹھے جس میں دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہوں ۔ اور اسکا اصل مقصد یہ ہے کہ نمازی تھک نہ جائے اسلئے تھوڑی دیر آرام کر کے اگلی نماز شروع کرے ۔ایسا کر نا مستحب ہے ، اگر یہ آرام نہ بھی کرے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
وجہ: (١)دو ترویحہ کے درمیان بیٹھنے کے لئے اثر یہ ہے۔ کان عمر بن خطاب یروحنا فی رمضان یعنی بین الترویحتین قدر ما یذھب الرجل من المسجد الی سلع ۔ (سنن للبیھقی ، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ص ٧٠٠،نمبر٤٦٢٢) اس عمل سے معلوم ہوا کہ دو ترویحہ کے درمیان تھوڑا آرام بھی کرنا چاہئے تاکہ لوگ پریشان نہ ہو جائیں(٢) اس حدیث میں ہے ۔ عن عائشة قالت کان رسول اللہ ۖ یصلی اربع رکعات فی اللیل ثم یتروح فأطال حتی رحمتہ فقلت بأبی انت و أمی یا رسول اللہ قد غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک و ما تأخر ، قال : أفلا أکون عبدا شکوراً ۔ (سنن للبیھقی ، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ص ٧٠٠،نمبر٤٦٢٣) اس حدیث میں بھی ہے کہ آپ ۖ تہجد کی چار رکعتوں کے بعد آرام فرماتے تھے ۔
ترجمہ: (٤٩٠) پھر امام لوگوں کو وتر پڑھائے ۔
تشریح : اور دنوں میں لوگ وتر تنہا تنہا پڑھیں گے لیکن رمضان میں وتر تراویح کے بعد جماعت کے ساتھ پڑھیں۔
وجہ : (١) اور وتر کی نماز بھی رمضان میں جماعت کے ساتھ ہو گی اسکے لئے یہ اثر ہے ۔ عن علی قال دعا القراء فی رمضان فامرھم منھم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعة قال و کان علی یوتربھم ۔ (سنن للبیھقی ، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ص ٦٩٩،نمبر٤٦٢٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھائی جائے گی۔اور دنوں میں لوگ اپنے اپنے طور پر وتر پڑھیںگے ۔
ترجمہ: ١ متن میں استحباب کا لفظ ذکر کیا لیکن صحیح بات یہ ہے کہ تراویح سنت ہے ۔ حضرت حسن نے امام ابو حنیفہ سے ایسے ہی نقل فر مایا ہے ، اسلئے کہ خلفاء راشدین نے اس پر ہمیشگی کی ہے ۔
تشریح : متن میں فرمایا کہ تراویح کی نماز مستحب ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ تراویح کی نماز سنت ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ خلفاء