(باب صدقة السوائم )
(فصل فی الابل )
(٧٦٨)قال لیس فی اقل من خمس ذود صدقة فاذا بلغت خمسا سائمة وحال علیہا الحول ففیہاشاة الیٰ تسع فاذا کانت عشرا ففیہا شاتان الیٰ اربع عشرة فاذا کانت خمس عشرة ففیہا ثلٰث شیاہ الی تسع عشرة فاذا کانت عشرین ففیہا اربع شیاہ الیٰ اربع وعشرین فاذا بلغت خمسًا
( باب زکوة الابل )
ضروری نوٹ عرب میں چونکہ اونٹ زیادہ تھے اس لئے مصنف اونٹ کی زکوة کے احکام پہلے لا رہے ہیں۔ اور سونا چاندی کم تھے اس لئے ان کے احکام بعد میں لا رہے ہیں۔
نوٹ: جانوروں میں زکوة اس وقت ہو گی جب کہ وہ سال کا اکثر حصہ چر کر زندگی گزارتے ہوں اور گھر پر کم کھاتے ہوں۔ لیکن اگر جانور کو گھر پر کھلا کر پالا جاتا ہو اور تجارت کے بھی نہ ہوں تو اس پر زکوة واجب نہیں ہے ۔(١)حدیث میں ہے ۔ بھز بن حکیم یحدث عن ابیہ عن جدہ قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول فی کل ابل سائمة من کل اربعین ابنة لبون (نسائی شریف ، باب سقوط الزکوة عن الابل اذا کانت رسلا لاھلھا ولحمولتھم ص ٣٣٨ نمبر ٢٤٥١ ابو داؤد شریف ، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٧ نمبر ١٥٧٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چرنے والے جانور ہو تو اس میں زکوة واجب ہے ۔ کام کاہو یا علوفہ ہو تو اس میں زکوة واجب نہیں۔ (٢) أن ابا بکر کتب لہ ھذا الکتاب لما وجھہ الی البحرین ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ، ھذہ فریضہ الصدقة التی فرضھا رسول اللہ ۖ علی المسلمین ....فاذا کانت سائمة الرجل ناقصة من اربعین شاة واحدة فلیس فیھا صدقة الا ان یشاء ربھا ۔ ( بخاری شریف ، باب زکوة الغنم ، ص ٢٣٥، نمبر ١٤٥٤)ابو داؤد شریف، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٧ نمبر ١٥٦٧ ) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ چرنے والے جانور میں زکوة ہے علوفہ میں نہیں۔
لغت: العلوفہ : وہ جانور جو سال کا اکثر حصہ گھر پر کھا کر پلتا ہو۔
ترجمہ: (٧٦٨) پانچ اونٹ سے کم میں زکوة نہیں ہے۔پس جب کہ چرنے والے پانچ اونٹ تک پہنچ جائے اور ان پر سال گزر جائے تو اس میں ایک بکری ہے نو اونٹ تک۔پس جب دس اونٹ ہو جائے تو اس میں دو بکریاں ہیں چودہ اونٹ تک۔پس جبکہ پندرہ اونٹ ہوجا ئیں تو ان میں تین بکریاں ہیں انیس اونٹ تک۔پس جبکہ بیس اونٹ ہو جائیں تو ان میں چار بکریاں ہیں چوبیس اونٹ تک۔ پس جب کہ پچیس اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک بنت مخاض ہے پینتیس اونٹ تک۔ پس جب کہ پہنچ جائے چھتیس تک تو