( فصل فی تکبیرات التشریق )
(٦٥٦) ویبدأ بتکبیر التشریق بعد صلوة الفجر من یوم عرفة ویختم عقیب صلوٰة العصر من یوم النحر ) ١ عند ابی حنفیة ۔ ٢ وقالا یختم عقیب صلوٰة العصر من اٰخر ایام التشریق والمسألة مختلفة بین الصحابة فاخذا بقول علی اخذًا بالاکثر اذ ہو الاحتیاط فی العبادات
( فصل فی تکبیرات تشریق )
ترجمہ: (٦٥٦) تکبیر تشریق نویں تاریخ فجر کی نماز کے بعد شروع کرے اور دسویں تاریخ عصر کی نماز کے بعد ختم کرے ۔
ترجمہ : ١ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ۔
تشریح: تکبیر تشریق ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد شروع کرے گا اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی عصر کی نماز کے بعد تک یعنی کل آٹھ نمازوں تک کہے گا ۔
وجہ: (١)تکبیر تشریق کا ثبوت اس آیت میں ہے۔ و یذکر وا اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بہیمة الانعام ۔ ( آیت ٢٨، سورة الحج ٢٢) اس آیت میں جو اللہ کا ذکر کر نے کے لئے کہا گیا ہے اس میں تکبیر تشریق بھی ہے ۔ (٢) اس اثر میں بھی اس کا ذکر ۔ و کان عمر یکبر فی قبة بمنی فیسمعہ أھل المسجد فیکبرون و یکبر أھل الاسواق حتی ترتج منی تکبیرا و کان ابن عمر یکبر بمنی تلک الایام و خلف الصلوات ۔( بخاری شریف ، باب التکبیر أیام منی و اذا غدا الی عرفة ، ص ١٥٦، نمبر ٩٧٠) اس اثر میں ہے کہ حضرت عمر تکبیر تشریق کہا کر تے تھے ۔
دسویں ذی الحجہ کے عصر تک تکبیر کہے اسکی دلیل یہ اثر ہے۔ عن ابی وائل عن عبد اللہ]ابن مسعود[ انہ کان یکبر من صلوة الفجر یوم عرفة الی صلوة العصر من یوم النحر ۔( مصنف بن ابی شیبة ٤١٤لتکبیر من ای یوم ھو الی ای ساعة ج اول، ص ٤٨٨ نمبر٥٦٣٣للبیھقی ، باب من استحب ان یبتدیٔ بالتکبیر خلف صلوة الصبح من یوم عرفة ج ثالث ص ٤٣٩،نمبر٦٢٧٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کے فجر سے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق کہی جائے گی۔
ترجمہ: ٢ اور صاحبین نے فر ما یا عصر کی نماز کے بعد سے ایام تشریق کے آخری دن تک ۔ اور مسئلہ صحابہ کے در میان مختلف فیہ ہے ۔ اسلئے صاحبین نے حضرت علی کے قول کو اکثر کا اعتبار کر تے ہوئے لیا ، اس لئے کہ عبادات میں یہی احتیاط ہے ۔
تشریح :صاحبین نے فر ما یا کہ نویں ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد تکبیر تشریق پڑھنا شروع کرے اور تیرھویں تاریخ کے عصر تک تکبیر تشریق پڑھے ۔
وجہ: (١) اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کے در میان اس بارے میں اختلاف رہا ہے کہ کب تکبیر ختم کرے ؟ حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا