(باب صلوة الخوف )
(٦٧٣) اذا اشتد الخوف جعل الامام الناس طائفتین طائفة علی وجہ العدوطائفة خلفہ فیصلی بہٰذہ الطائفة رکعة وسجدتین فاذا رفع رأسہ من السجدة الثانیة مضت ہٰذہ الطائفة الی وجہ العدو وجاء ت تلک الطائفة فیصلی بہم الامام رکعة وسجدتین وتشہد وسلم ولم یسلموا وذہبوا الی وجہ
( باب صلوة الخوف )
ضروری نوٹ: نماز خوف کی صورت یہ ہے کہ تمام آدمی ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتے ہوں تو امام دو جماعتیں بنا دیںگے۔اور ہر ایک جماعت کو آدھی آدھی نماز پڑھائیںگے۔لیکن اگر دو امام ہوں تو ہر ایک جماعت الگ الگ امام کے پیچھے پوری پوری نماز پڑھیںگے۔پھر آدھی آدھی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔بعض ائمہ ]جس میں حضرت امام ابو یوسف بھی ہیں [ فرماتے ہیں کہ جب تک حضورۖ حیات رہے تو ہر ایک آدمی اپنی آخری نماز آپۖ کے پیچھے پڑھنا چاہتا تھا اس لئے آپ کی حیات میں نماز خوف تھی۔ لیکن آپۖ کے بعد اب اس طرح نماز پڑھنا منسوخ ہے۔ اب دو الگ الگ امام ہوںگے اور دونوں جماعتیں الگ الگ امام کے پیچھے نماز پڑھے گی۔ان کا استدلال اس آیت سے ہے جو صلوة خوف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ واذا کنت فیھم قاقمت لھم الصلوة فلتقم طائفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتأت طائفة اخری لم یصلوا فلیصلوا معک ولیأخذوا حذرھم واسلحتھم ۔(آیت ١٠٢ سورة النساء ٤) اس آیت میں حضور کو خطاب ہے کہ آپۖ موجود ہوں تو لوگوں کو نماز خوف پڑھائیں۔ جس کا مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ آپ کے بعد نماز خوف اس طرح نہیں پڑھی جائے گی۔
فائدہ: جمہور ائمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسی اشعری نے لوگوں کو نماز خوف پڑھائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں بھی صلوة خوف جائز ہے ، اثر یہ ہے ۔عن ابی العالیة قال صلی بنا ابو موسی الاشعری باصبھان صلوة الخوف۔ (سنن للبیھقی ، باب الدلیل علی ثبوت صلوة الخوف وانھا لم تنسخ ج ثالث ص٣٥٨،نمبر٦٠٠٨) اس اثر سے معلوم ہوا کہ بعد میں بھی نماز خوف پڑھائی جا سکتی ہے۔
نوٹ: اوپر کی آیت اور یہ حدیث صلوة خوف کے جواز کی دلیل ہیں۔
ترجمہ: (٦٧٣) جب خوف سخت ہو جائے تو امام لوگوں کو دو جماعت بنائے ۔ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میںاور دوسر ی جماعت امام کے پیچھے۔ پس امام پہلی جماعت کو ایک رکعت اور دو سجدے پڑھائے، پس جب کہ دوسرے سجدہ سے سر اٹھائے پہلی جماعت چلی جائے گی دشمن کے مقابلہ پر،اور دوسری جماعت آئے گی تو اس کو امام نماز پڑھائے گا ایک رکعت اور دو سجدے۔اور امام