(باب زکوٰة المال )
(فصل فی الفضة)
(٧٩٦) لیس فیما دون مائتی درہم صدقة) ١ لقولہ علیہ السلام فیما دون خمس اواق صدقة والاوقیة اربعون درہما
( باب زکوة الفضة )
ضروری نوٹ: فضة کے معنی چاندی کے ہیں۔یہاں فضة سے مراد درہم،چاندی کا زیور اور چاندی کا برتن مراد ہے۔حنفیہ کے نزدیک ان ساری چیزوں میں زکوة ہے۔ (١)دلیل یہ حدیث ہے ۔ ان امرأ ة اتت رسول اللہ و معھا ابنة لھا وفی ید ابنتھا مسکتان غلیظتان من ذھب فقال اتعطین زکوة ھذا؟ قالت لا قال ایسرک ان یسورک اللہ بھما یوم القیامة سوارین من نار؟ قال فخلعتھما والقتھما الی النبی ۖ وقالت ھما للہ ورسولہ ۔ (ابو داؤد شریف ، باب الکنز ما ھو وزکوة الحلی ص ٢٢٥ نمبر ١٥٦٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زیور کی بھی زکوة لازم ہے۔آیت سے بھی سو نے اور چاندی میں زکوة واجب ہو تی ہے ۔ (٢)و الذین یکنزون الذھب و الفضة و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم ۔( آیت ٣٤، سورة التوبة ٩ ) اس آیت میں سونا اور چاندی عام ہے چاہے کسی حال میں ہو جس کے نہ خرچ کر نے پر وعید سنائی گئی ہے ، اس لئے سبھی قسم کے سونا چاندی پر زکوة ہو گی ۔
مال دو قسم کے ہیں۔ایک اموال ظاہرہ اور دوسرا اموال باطنہ ]١[جو مال گھر سے باہر ہو جیسے تجارت کا مال ، جنگلوں میں چرنے والے جانور ، کھیتوں کے غلے ، باغوں کے پھل ، انکی حفاظت بادشاہ کر تے ہیں اس لئے بادشاہ کے مزکی ، اور عاشر کو اس کی زکوة لینے کا حق ہے ، وہ لیکر غرباء پر تقسیم کرے ۔]٢[ اور جو مال گھر کے اندر رہتا ہے جیسے گھر کا سو ناچاندی وغیرہ اس کو اموال باطنہ کہتے ہیں ، اس کی حفاظت خود مالک کر تا ہے ، اس لئے اپنے ہاتھ سے اسکی زکوة غرباء پر تقسیم کرے ، یا جی چاہے تو بادشاہ کے مزکی کو دے ، البتہ اس کو دینا ضروری نہیں ہے۔
ترجمہ: (٧٩٦)دوسو درہم سے کم میں زکوة نہیں ہے۔
ترجمہ: ١ حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کہ پانچ اوقیہ سے کم زکوة نہیں ہے ۔ اور اوقیہ چالیس درہم کا ہو تا ہے ۔
تشریح : دو سو درہم سے کم ہو تو اس پر زکوة نہیں ہے ، کیونکہ نصاب سے کم ہے ،کیونکہ حضور ۖ نے فر مایا کہ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوة نہیں ہے۔
وجہ: (١)حدیث میں موجود ہے کہ دوسو درہم سے کم میں زکوة نہیں ہے۔سمعت ابا سعیدالخدری قال قال رسول اللہ