حدیث مسلم شریف ، ابوداود شریف ، ترمذی شریف میں صرف تہجد کے باب میں ذکر فرمایا ہے تراویح کے باب میں ذکر نہیں فر مایا جسکا مطلب یہ ہے کہ حضور ۖ تہجد میں آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے(٢) اس حدیث سے بھی اسکی تائید ہو تی ہے۔ عن ابن عباس قال کان النبی ۖ یصلی من اللیل ثمان رکعات و یوتر بثلاث ۔ ( طبرانی کبیر، باب یحی بن وثاب عن ابن عباس ، ج ثانی عشر ، ص ١٠٦، نمبر ١٢٦٩٠) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز حضور ۖ آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے۔
(٣)صرف امام بخاری نے اس حدیث کو تراویح کے باب میںبھی ذکر فرمایا ہے، اور تہجد کے باب میں بھی ذکر فرمایا ہے ۔ تہجد کے بارے میں بخاری کی اوپر حدیث گزر چکی اور تراویح کے بارے میں حدیث کا باب یہ ہے ۔ سأل عائشة کیف کانت صلوة رسول اللہ ۖ فی رمضان ؟ فقالت : ما کان یزید فی رمضان و لا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة ، یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ، ثم یصلی أربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلی ثلاثا ۔ ( بخاری شریف ، باب فضل من قام رمضان ،ص ٣٢٢ ، نمبر ٢٠١٣)اس آٹھ رکعتوں کی حدیث کو امام بخاری نے قیام رمضان ، یعنی تراویح کے باب میں ذکر فر مایا ہے ۔ (٤) اس حدیث میں تذکرہ ہے کہ آپ چار رکعتیں ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے جن کے حسن کا کیا کہنا۔اور تراویح کی نماز ایک ساتھ چار رکعت نہیں ہوتی۔ بلکہ دو دو رکعت کرکے ہوتی ہے۔اس لئے وہ حدیث تراویح کے بارے میں نہیں ہے بلکہ تہجد کے بارے میں ہے۔ (٣) سنن للبیھقی نے دونوں روایتوں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ پہلے گیارہ رکعت تہجد پڑھتے ہوںگے۔پھر بیس رکعت تراویح پڑھتے ہوںگے۔ان کا جملہ اس طرح ہے ویمکن الجمع بین الروایتین فانھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم کانوایقومون بعشرین ویوترون بثلاث (سنن للبیھقی ، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ج ثانی ص ٦٩٩،نمبر١٨ ٤٦)اس عبارت سے معلوم ہواکہ رمضان میں بھی پہلے تہجد کی نماز آٹھ رکعتیں پڑھتے ہو نگے ، اسکے بعد تراویح کی بیس رکعتیں پڑھتے تھے ۔
اور امام جماعت کے ساتھ تراویح اور وتر پڑھائے اسکی دلیل یہ اثرہے (١)ان عمر بن خطاب امر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة (مصنف ابن ابی شیبة،٦٧٧ کم یصلی فی رمضان من رکعة ،ج ثانی، ص ١٦٥، نمبر ٧٦٨١ مصنف عبد الرزاق، باب قیام رمضان ج رابع ص ٢٠٠ نمبر ٧٧٦٠) (٢) ان علیا أمر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة ۔ (مصنف ابن ابی شیبة،٦٧٧ کم یصلی فی رمضان من رکعة ،ج ثانی، ص ١٦٥، نمبر ٧٦٨٠سنن للبیھقی، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ج ثانی ص٦٩٨،نمبر٤٦٢٠)ان دونوں اثروں سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر اور حضرت علی کسی امام کو حکم فرماتے کہ وہ لوگوں کو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائے جس سے ثابت ہوا کہ تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ ہو گی ۔
اور تراویح دو دو رکعتیں پڑھائے اسکی دلیل یہ اثر ہے ۔عن ابی عمر أنہ صلی خلف ابی ھریرة و کان یصلی رکعتین ثم یسلم ثم یقوم فیوتر برکعة ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٦٨٥ فی کم یسلم الامام ، ج ثانی ، ص ١٧٠ ، نمبر ٧٧٣٤ ) اس اثر میں