(باب صلوة الوتر )
(٤٦٠) الوتر واجب عند ابی حنیفة )
( وتر کا بیان )
نوٹ : نماز وتر کے بارے میں پانچ بحثیں ہیں]١[ وتر کی نماز واجب ہے، یا سنت ۔]٢[ وتر کی نماز ایک سلام کے ساتھ تین رکعت ہے ، یا ایک رکعت ہے ۔ ]٣[ وتر میں دعاء قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد ]٤[ دعاء قنوت پورے سال پڑھے یا صرف رمضان کے اخیر میں ]٥[ اور نمازوںمیں بھی قنوت پڑھے یا صرف وتر کی نماز میں یہ پانچ بحثیں ہیں ۔
ترجمہ: (٤٦٠) وتر امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے ۔
تشریح: امام ابو حنیفہ کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے۔ اور تین رکعتیں ایک ساتھ ہیں۔ دو رکعت کے بعد سلام کرکے تیسری رکعت ایک سلام کے ساتھ نہ پڑھے ۔ بلکہ تینوں رکعتیں ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھے۔
وجہ: (١) وتر کی تاکید بہت سی احادیث میں ہے ۔اور جب تاکید ہوتی ہے تو سنت سے اوپر اٹھا کر واجب میں لے جاتے ہیں۔لیکن چونکہ آیت سے ثابت نہیں ہے اور نہ اتنی تاکید ہے کہ فرض میں لے جایا جا سکے ۔ورنہ تو پانچ کے بجائے چھ نمازیں فرض ہو جائیںگی۔اس لئے وتر کو واجب میں رکھا۔
نوٹ: امام شافعی کے نزدیک سنت کے بعد فرض کا درجہ ہے ۔واجب کا درجہ نہیں ہے اس لئے وتر ان کے یہاں بھی مؤکد ہے۔لیکن سنت میں داخل ہے۔کیونکہ آگے واجب کا درجہ ان کے یہاں نہیں ہے(٢) واجب ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ جسکو صاحب ھدایہ نے نقل کی ہے ۔ قال ابو الولید العدوی قال خرج علینا رسول اللہ ۖ فقال ان اللہ تعالی قد امدکم بصلوة وھی خیرلکم من حمر النعم وھی الوتر فجعلھا لکم فیما بین العشاء الی طلوع الفجر ۔ (ابو داؤد شریف، باب استحباب الوتر ،باب تفریع ابواب الوتر ص ٢٠٨ نمبر ١٤١٨ ترمذی شریف،باب ما جاء فی فضل الوتر ص ١٠٣ نمبر ٤٥٢ ابن ماجہ شریف ، باب ماجاء فی الوتر ص ١٦٤،نمبر١١٦٨)فرض نمازوں پر زیادہ کرنے کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ وہ بھی فرض کی طرح ہی اہم ہے لیکن ہم فرض تو نہیں کرتے اس لئے واجب قرار دیتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر کا وقت عشاء کے بعد ہے ، فجر تک (٣)عن عبد اللہ بن بریدة عن ابیہ قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا،الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا ، الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی من لم یوتر ص ٢٠٨ نمبر ١٤١٩ سنن للبیھقی ، باب تاکید صلوة الوتر ج ثانی ص٦٥٩، نمبر٤٤٦٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وتر حق ہے یعنی واجب ہے (٤)عن علی قال قال رسول اللہ ۖ یا اھل القرآن اوتروا فان اللہ وتر یحب الوتر ۔ (ابو داؤد