( فصل فی مالا صدقة فیہ )
(٧٨٤) ولیس فی الفصلان والعجاجیل والحملان صدقة) ١ عند ابی حنیفة الا ان یکون معہا کبارو ہذا اٰخر اقوالہ وہو قول محمد
(جانور کے بچوں کا فصل )
ضروری نوٹ : جانور کے بچے مثلا اونٹنی کے بچے ، گائے کے بچے ، بکری کے بچے اپنے بڑوں کے ساتھ ہوں تو ان بچوں کو شمار کر کے جانور کی تعداد پوری ہو تو اس پر زکوة ہے یا نہیں ؟ یا ان بچوں کو بڑوں کے ساتھ شمار ہی نہ کیا جا ئے ۔یا صرف بچے کسی کے پاس ہو اور اس جانور کی زکوة کی تعداد پوری ہو تی ہو ، مثلا اونٹ کے صرف پانچ چھوٹے بچے کسی کے پاس ہو تو اس پر زکوة واجب ہو گی یا نہیں ؟ اس بارے میں امام ابو حنیفہ کے تین قول ہیں ]١[ بچوں کے ساتھ بڑے بھی ہوں تو بچوں کو شمار کر کے زکوة ہو گی ۔ ]٢[ صرف چھوٹے بچے کسی کے پاس ہوں اور اس سے تعداد زکوة پوری ہو تی ہو تو اس کا حکم بڑے جانور کی طرح ہے ، اس میں بڑے کی طرح زکوة واجب ہو گی ۔ ]٣[ صرف چھوٹے بچے ہوں تو تعداد میں چاہئے کتنے ہی ہوں صرف ایک بچہ زکوة میں لازم ہو گا۔۔ دلیل اور تفصیل آگے دیکھیں ۔
ترجمہ: (٧٨٤)اونٹنی کے بچے ،بکری کے بچے اور گائے کے بچے میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک زکوة نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے ساتھ بڑے ہوں ۔
ترجمہ: ١ یہ آخری قول ہے ، اور یہی قول امام محمد کا ہے ۔
تشریح :ان بچوں کے ساتھ بڑے ہوں تو بچوں کو بڑوں کے تابع کرکے زکوة واجب ہوگی۔ لیکن اگر بڑے نہ ہوں تو نسل بڑھنے کا امکان نہیں ہے بلکہ بچے بڑے ہوں گے لیکن تعداد کی زیادتی نہیں ہوگی اس لئے اس میں زکوة نہیں ہے۔
وجہ: (١) ان کی دلیل یہ اثر ہے ۔ عن الحسن قالا لایعتد بالسخلة ولا توخذ فی الصدقة ( مصنف ابن ابی شیبة ٢٤ السخلة تحسب علی صاحب الغنم ج ثانی ص ٣٦٧،نمبر٩٩٨٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ بکری کے چھوٹے بچے زکوة میں شمار نہیں ہوںگے ۔اور اسی پر قیاس کرکے اونٹنی کے بچے اور گائے کے بچے پر بھی زکوة نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے ساتھ بڑے نہ ہوں۔ (٢) اور بڑے ہوں تو اسکے تابع کر کے بچے کی بھی زکوة لی جائے اس کے لئے یہ اثر ہے ۔عن عمراستعمل اباہ علی طائف ....حتی لقی عمر بالذی قالوا فقال ]عمر[ اعتد علیہم بالغذاء وان جاء بھا الراعی یحملھا علی یدہ، و أخبرھم أنک تدع لھم الشاة الماخض و الأکیلة و فحل الغنم ، و خذ العناق الجذعة و الثنیة فذالک عدل بین خیار المال و الغذائ۔( مصنف ابن ابی شیبة ٢٤ السخلة تحسب علی صاحب الغنم ۔ج ثانی ،ص ٣٦٨،نمبر٩٩٨٥ سنن