(فصل فی الخیل)
(٧٨٠) اذا کانت الخیل سائمة ذکور او انا ثا فصاحبہا بالخیار ان شاء اعطی من کل فرس دینار اوان شاء قَوَّمہا واعطیٰ عن کل مائتین خمسة دراہم وہذاعند ابی حنیفة) ١ وہو قول زفر٢ وقالا لا زکوٰة فی الخیل لقولہ علیہ السلام لیس علی المسلم فی عبدہ ولا فی فرسہ صدقة
( باب زکوة الخیل )
ضروری نوٹ: گھوڑے کے سلسلہ میں کئی قسم کی احادیث ہیں۔ اس لئے علماء میں اختلاف ہے کہ گھوڑے میں زکوة واجب ہے یا نہیں۔ یہ بات طے ہے کہ جہاد کے گھوڑے میں اور خدمت کے گھوڑے میں زکوة نہیں ہے۔ اور تجارت کے گھوڑے میں اس کی قیمت میں ہر دو سو درہم میں پانچ درہم لازم ہے۔ البتہ جو گھوڑے نسل بڑھانے کے لئے ہیں ان ہی میں اختلاف ہے کہ زکوة واجب ہے یا نہیں ؟ اور ہر ایک امام کا مسئلہ اور اس کی دلیل آگے آرہی ہے۔
ترجمہ: (٧٨٠) جب کہ گھوڑے چرنے والے ہوں اور نر اور مادہ دونوں ہوں اور ان پر سال گزر چکا ہو تو اس کے مالک کو اختیار ہے ]١[ چاہے تو ہر گھوڑے کے بدلہ میں ایک دینار دے ]٢[ اور چاہے تو اس کی قیمت لگائے اور ہر دو سو درہم کے بدلے پانچ درہم دے ۔
ترجمہ : ١ یہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہے ، اور یہی قول امام زفر کا ہے ۔
تشریح :چونکہ یہ گھوڑے جہاد کے نہیں ہیں اور روز مرہ کام آنے والے بھی نہیں ہیں بلکہ چرنے والے ہیں اور نسل بڑھانے کے لئے ہیں اس لئے اس کی زکوة دینے کی دو شکلیں ہیں۔ایک یہ ہے کہ ہر گھوڑے کے بدلے ایک دینار دیدے۔اور دوسری شکل یہ ہے کہ گھوڑے کی قیمت لگائے اور جتنی اس کی قیمت ہو اس کے ہر دو سو درہم میں پانچ درہم زکوة دیدے۔
وجہ : (١) اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن جابر قال قال رسول اللہ ۖ فی الخیل السائمة فی کل فرس دینار تؤدیہ ۔ (دار قطنی ١٨، باب زکوة مال التجارة وسقوطھا عن الخیل والرقیق ج ثانی ص ١٠٩ نمبر ٢٠٠٠ سنن للبیھقی ، باب من رأی فی الخیل صدقة ج رابع ، کتاب الزکوة ص ٢٠٢،نمبر٧٤١٩ مصنف عبد الرزاق ، باب الخیل ، ج رابع ، ص ٣٣، نمبر ٦٩١٩) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ چرنے والے گھوڑے کے ہر گھوڑے کے بدلے میں ایک دینار زکوة دے۔ اور چونکہ دوسو درہم میں پانچ درہم زکوة لازم ہے اس لئے مالک کو اختیار ہے کہ قیمت لگا کر ہر دوسو درہم میں پانچ درہم دیدیا کرے۔
ترجمہ: ٢ صاحبین فرماتے ہیں کہ گھوڑے میں زکوة نہیں ہے۔ حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ مسلمان پر اسکے غلام میں اور اس کے گھوڑے میں صدقہ نہیں ہے ۔