(کتاب الزکوٰة )
(755) الزکوٰة واجبة علي الحرالعاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاماوحال عليہ الحول)
( کتاب الزکوة )
ضروری نوٹ: زکوة کو نماز کے بعد لائے کیوں کہ تقریبا اسی]٨٠ [آیتوں میں نماز کے بعد زکوة کا ذکر ہے۔ اس لئے نماز کے ابحاث ختم ہونے کے بعد زکوة کا تذکرہ لائے۔ زکوة کے معنی پاکی ہیں اور چونکہ زکوة دینے سے مال پاک ہوتا ہے اس لئے اس کو زکوة کہتے ہیں۔یا زکوة کے معنی بڑھنا ہیں اور چونکہ زکوة دینے سے مال بڑھتا ہے اس لئے اس کو زکوة کہتے ہیں۔اس کا ثبوت بہت سی آیتوں میں ہے۔مثلا یقیمون الصلوة و یؤتون الزکوة و یطیعون اللہ ورسولہ (آیت ٧١ سورۂ توبہ ٩) اسی آیت سے زکوة دینا فرض ثابت ہوتا ہے۔
ترجمہ:(٧٥٥) زکوة واجب ہے ہر وہ آزاد پر جوعاقل ہو، بالغ ہو ،مسلمان ہو جب کہ نصاب کا پورا مالک ہو، اور اس پر سال گزر گیا ہو۔
تشریح: زکوة عبادت مالیہ ہے۔اس لئے کافر پر زکوة واجب نہیں اس سے جو کچھ لیا جائے گا وہ ٹیکس لیا جائے گا۔چنانچہ متن میں زکوة واجب ہونے کے لئے سات ]٧[ شرطیں بیان فر ما رہے ہیں ۔]١[ آزاد ہو۔ ]٢[ عاقل ہو۔ ]٣[ بالغ ہو۔ ]٤[ مسلمان ہو ]٥[ نصاب کا مالک ہو ۔]٦[ نصاب پر ملک مکمل ہو ]٧[ نصاب پر سال گزر چکا ہو ۔ ۔ ہر ایک کی تفصیل اور دلائل یہ ہیں ۔
]١[١ آزاد ہو ، اس لئے غلام اور مکاتب پر زکاة واجب نہیں ہے۔کیونکہ یہ مال اس کے مولی کا ہے۔ غلام کا نہیں ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے(١) عن جابر قال قال رسول اللہ لیس فی مال المکاتب زکوة حتی یعتق (دار قطنی ١٠، باب لیس فی مال المکاتب زکوة حتی یعتق ج ثانی ص ٩٣ نمبر ١٩٤١ سنن للبیھقی ، باب من قال لیس فی مال العبد زکوة ،ج رابع ،ص ١٨٢،نمبر٧٣٤٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مکاتب کے مال میں زکوة نہیں ہے۔کیونکہ وہ آزاد نہیں ہے،(٢)دوسری بات یہ ہے کہ مال کا پورا مالک بننا ضروری ہے اور غلام کا مال نہیں ہے اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اس کے مولی کا مال ہے ۔
]٢[دوسری شرط یہ ہے کہ عاقل ہو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بالغ ہو چکا ہے لیکن مجنون ہے اس پر زکوة نہیں ہے ۔ بچے اور مجنون پر زکوة نہ ہو نے کی دلیل ایک ہی ہے کہ دونوں کو عقل نہیں ہے اس لئے دو نوں کے دلائل بچے پر زکوة واجب نہ ہو نے کے تحت میں آرہے ہیں ۔
]٣[تیسری شرط بالغ ہونا ہے۔چنانچہ بچے کے مال میں زکوة واجب نہیں ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے (١) ۔عن علی عن النبی