( باب صلوٰة المسافر)
(٥٨٦) السفر الذی یتغیر بہ الاحکام ان یقصد مسیرة ثلثة ایام ولیا لیہا بسیر الابل ومشی الاقدام)
( باب صلوة المسافر )
ضروری نوٹ: آدمی سفر میں چلا جائے تو اس کو مسافر کہتے ہیں۔سفر کی حالت میں آدمی آدھی نماز پڑھے اس کی دلیل (١) یہ آیت ہے و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح أن تقصروا من الصلوة ان خفتم أن یفتنکم الذین کفروا ( سورة النساء ٤،آیت ١٠١) اس آیت میں ہے کہ جب سفر کرو تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ نماز میں قصر کرو۔ (٢)اس حدیث میں اسکا ثبوت ہے ۔سمع ابن عمر یقول صحبت رسول اللہ فکان لایزید فی السفر علی رکعتین وابا بکر و عمر و عثمان کذلک۔ (بخاری شریف ، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلوات ص ١٤٩ نمبر ١١٠٢ مسلم شریف ، باب صلوة المسافرین وقصرھا ص ٢٤٢ نمبر ١٥٧٩٦٨٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورۖ اور صحابہ نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔(٣) عن ابن عباس قال : ان اللہ فرض علی لسان نبیکم ۖ علی المسافر رکعتین ، و علی المقیم أربعا ، و فی الخوف رکعة ۔ ( مسلم شریف ، باب صلوة المسافرین و قصرھا ، ص ٢٨٠، نمبر ٦٨٧ ١٥٧٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر کے اوپر دو رکعت ہی فرض ہے ۔
ترجمہ: (٥٨٦) وہ سفر جس سے احکام بدلتے ہیں یہ ہے کہ تین دن اور تین راتیں چلنے کا ارادہ کرے ، اونٹ کی چال سے ، یا پیدل ۔
تشریح : جس مقام سے جس مقام تک جانا ہے وہاں کا سفر تین دن کا راستہ ہو۔ درمیانی چال سے کہ صبح سے زوال تک چلے۔اور اونٹ کی چال اور انسان کی پیدل چال کا اعتبار ہے۔کیونکہ انسان عام طور پر اسی رفتار سے چلتا ہے۔ اس لئے شریعت نے اسی کی چال کا اعتبار کیا ہے۔ اس سے تیز رفتار کی چال کا اعتبار نہیں کیا۔کیونکہ شریعت انسان کی عمومی حالت کا اعتبار کرتی ہے۔
نوٹ: آدمی عموما ایک دن میں اوسط چال سے صبح سے دو پہر تک میں سولہ (١٦) میل چل سکتا ہے۔اس اعتبار سے تین دن میں اڑتالیس (٤٨)میل ہوتے ہیں۔اور حنفیوں کے یہاں اڑتالیس میل اسی حساب سے مشہور ہے۔
وجہ: (١)تین دن کے سفر کا اعتبار اس حدیث سے ہے ۔عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ لا یحل لامرأة تؤمن باللہ والیوم الآخر ان تسافر سفرا یکون ثلاثہ ایام فصاعدا الا و معھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا ۔ ( مسلم شریف ، باب سفر المرأة مع محرم الی حج و غیرہ ص ٤٣٤ ابواب الحج نمبر ١٣٤٠ ٣٢٧٠ بخاری شریف ،