کر دیا جائے گا ۔ اس میں تراویح کا ثبوت ہے ۔
بیس رکعت تراویح کی دلیل یہ حدیث ہے(١)۔عن ابن عباس قال کان النبی ۖ یصلی فی شہر رمضان عشرین رکعة والوتر ۔ (طبرانی الکبیر ، باب مقسم عن ابن عباس ، ج حادی عشر ، ص ٣١١ ، نمبر ١٢١٠٢ سنن للبیھقی، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ج ثانی ص٦٩٨،نمبر٤٦١٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور ۖ بیس رکعتیں تراویح پڑھتے تھے (٢) ان عمر بن خطاب امر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة (مصنف ابن ابی شیبة،٦٧٧ کم یصلی فی رمضان من رکعة ،ج ثانی، ص ١٦٥، نمبر ٧٦٨١ مصنف عبد الرزاق، باب قیام رمضان ج رابع ص ٢٠٠ نمبر ٧٧٦٠) اس حدیث اور عمل صحابہ سے معلوم ہوا کہ تراویح کی نماز بیس رکعتیں ہیں۔ (٣) ان علیا أمر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة ۔ (مصنف ابن ابی شیبة،٦٧٧ کم یصلی فی رمضان من رکعة ،ج ثانی، ص ١٦٥، نمبر ٧٦٨٠سنن للبیھقی، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ج ثانی ص٦٩٨،نمبر٤٦٢٠)اس اثر میں بھی ہے کہ حضرت علی بیس رکعتیں تراویح پڑھنے کا حکم دیا کر تے تھے۔
(٤)امام ترمذی نے فرمایا کہ اہل مدینہ کی ایک رائے ہے کہ ٤١ رکعتیں تراویح پڑھے ، البتہ امام شافعی کا مسلک یہ بیان فر مایا کہ وہ بیس رکعتیں پڑھنے کے قائل ہیں ترمذی شریف کی عبارت یہ ہے ۔و اختلف اھل العلم فی قیام رمضان ، فرأی بعضھم أن یصلی احدی و اربعین رکعة مع الوتر ، و ھو قول أھل المدینة ، و العمل علی ھذا عندھم بالمدینة
وأکثر اھل العلم علی ما روی عن علی و عمر و غیرھما من أصحاب النبی ۖ عشرین رکعة و ھو قول سفیان الثوری و ابن المبارک و الشافعی ، و قال الشافعی و ھکذا أدرکت ببلدنا بمکة یصلون عشرین رکعة ۔ ( ترمذی شریف ، باب ما جاء فی قیام شھر رمضان ، ٢٠١، نمبر ٨٠٦) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ امام شافعی کا مسلک بھی یہی ہے کہ تراویح بیس رکعتیں پڑھی جائے ۔
نوٹ: (١)حضرت عائشہ کی ایک حدیث ہے جس سے یہ استدلال کر تے ہیں کہ تراویح کی نماز صرف آٹھ رکعتیں ہیں ، لیکن اس حدیث سے استدلال کر نا اسلئے صحیح نہیں ہے کہ امام بخاری ، امام مسلم، امام ابو داوداور امام ترمذی نے اس حدیث کو حضورۖ کے تہجد کے باب میں نقل کیا ہے ، جس کا مطلب یہ نکلا کہ یہ حضرات اس حدیث کو تہجد کے ساتھ خاص مانتے تھے کہ آپ ۖ تہجد میں آ ٹھ رکعتیں پڑھا کر تے تھے تراویح میں نہیں ۔ حدیث یہ ہے ۔ سأل عائشة کیف کانت صلوة رسول اللہ ۖ فی رمضان ؟ فقالت : ما کان رسول اللہ ۖ یزید فی رمضان و لا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة ، یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ، ثم یصلی ثلاثا ۔ ( بخاری شریف ، باب قیام النبی ۖ باللیل فی رمضان و غیرہ ، ص ١٨٣، نمبر ١١٤٧ مسلم شریف ، باب صلوة اللیل و عدد رکعات النبی ۖ فی اللیل و ان الوتر رکعة ، ص ٢٩٩ ، نمبر ٧٣٨ ١٧١٨ ابو داود شریف ، باب فی صلوة اللیل ، ص ١٩٩ ، نمبر ١٣٤١ ترمذی شریف ، باب ما جاء فی وصف صلوة النبی ۖ باللیل ، ص ٩٩، نمبر ٤٣٩) یہ