٣ اما الفرائض مختصة بوقت ٤ والسنن الرواتب نوافل ٥ وعن ابی حنیفة انہ ینزل لسنة الفجر لانہ اٰکدمن سائرہا ٦ والتقیید بخارج المصر ینفی اشتراط السفر والجوازَ فی المصر
ترجمہ: ٣ بہر حال فرائض تو وقت کے ساتھ خاص ہیں ۔
تشر یح :چونکہ فرائض وقت کے ساتھ خاص ہیں اسلئے اس خاص وقت میں اتر کر نماز پڑھ لے گا اسلئے اس میں اتر نے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٤ اور سنن رواتب نوافل کے درجے میں ہیں ۔
تشریح : فرض نماز سے پہلے اور اسکے بعد جو بارہ سنتیں ہیںوہ نوافل کے درجے میں ہیں اسلئے انکو بھی سواری پر بیٹھ کر اشارے سے پڑھنا جائز ہے وہ فرض کے درجے میں نہیں ہیں ۔
ترجمہ: ٥ اور امام ابو حنیفہ سے ایک روایت یہ ہے کہ فجر کی سنت کے لئے اترے اسلئے کہ اور نوافل سے وہ زیادہ مؤکد ہے ۔
تشریح : فجر کی سنت اور سنتوں سے اہم ہے اسلئے امام ابو حنیفہ سے ایک روایت یہ ہے کہ فجر کی سنت کے لئے سواری سے اترے اور رکوع اور سجدہ کر کے نماز اداء کرے ۔
وجہ : (١)فجر کی سنت اہم ہو نے کی دلیل یہ حدیث ہے :عن عائشة قالت : أن رسول اللہ ۖ لم یکن علی شیء من النوافل أشد معاھدة منہ علی الرکعتین قبل الصبح ۔ ( ابو داود شریف ، باب رکعتی الفجر ، ص ١٨٨ ، نمبر ١٢٥٤ ) (٢) عن أبی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ (( لا تدعوھما و ان طردتکم الخیل ۔ ( ابو داود شریف ، باب فی تخفیفھما۔ ای رکعتی الفجر ، ص ١٨٨ ، نمبر١٢٥٨ ) اس حدیث میں ہے کہ فجر کی سنت اور سنتوں سے اہم ہے اسلئے اسکو سواری سے نیچے اتر کر پڑھے ۔
ترجمہ: ٦ متن میں شہر سے باہر ہو نے کی قید سفر کی شرط کی نفی کرتی ہے اور شہر میں جائز ہو نے کی بھی نفی کرتی ہے ۔
تشریح : متن میں یہ قید لگائی کہ جو آدمی شہر سے باہر ہو وہ سواری پر سوار ہو کر نفل پڑھ سکتا ہے ، اس قید سے دو باتیں معلوم ہوئیں ]١[ ایک تو یہ کہ اس آدمی کے لئے مدت سفر ہو نا ضروری نہیں ہے صرف شہر سے باہر ہو تو سواری پر سوار ہو کر نفل پڑھ سکتا چاہے تھوڑے ہی فاصلے کے لئے سفر کر رہا ہو ، ]٢[ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ شہر سے باہر ہو تب ہی سواری پر نفل پڑھ سکتا ہے اگر شہر میں ہو تو نہیں پڑھ سکتا ۔
وجہ: (١) حدثنی انس ابن مالک : أن رسول اللہ ۖ کان اذا سافر فأراد أن یتطوع استقبل بناقتہ القبلة فکبر ثم صلی حیث وجھہ رکابہ ۔ ( ابو داود شریف ، باب التطوع علی الراحلة و الوتر ، ص ١٨٢، نمبر ١٢٢٥) اس حدیث