١ لحدیث ابن عمر قال رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یصلی علٰی حمار وہو متوجہ الیٰ خیبر یؤمی ایماء ٢ ولان النوافل غیر مختصة بوقت فلوالزمناہ النزول والاستقبال تنقطع عنہ النافلة اوینقطع ہو عن القافلة
بن ربیعة اخبرہ قال رأیت النبی ۖوھو علی الراحلة یسبح یؤمی برأسہ قبل الی ای وجہ توجہ ولم یکن رسول اللہ ۖ یصنع ذلک فی الصلوة المکتوبة ۔ (بخاری شریف ، باب ینزل للمکتوبة ص١٤٨ نمبر ١٠٩٧ مسلم شریف ، باب جواز صلوة النافلة علی الدابة فی السفر حیث توجھت ص ٢٤٤ نمبر ١٦١٨٧٠٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفل نماز میں سواری پر رکوع سجدے کا اشارہ کرے گا۔اور فرض نماز میں اتر کر نماز پڑھنا ہوگی۔
ترجمہ: ١ عبد اللہ ابن عمر کی حدیث کی وجہ سے ، وہ فر ماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو گدھے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس حال میں کہ وہ خیبر کی متوجہ تھے ، اور اور اشارہ کر رہے تھے ۔
تشریح : اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کہ سواری جس طرف متوجہ ہو اسی طرف رخ کر کے نفل پڑھنا جائز ہے ، اور رکوع سجدہ نہیں کر سکے گا اسلئے رکوع سجدے کا اشارہ کرے ۔ صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن ابن عمر قال رأیت رسول اللہ ۖ یصلی علی حمار و ھو موجہ الی خیبر ۔( مسلم شریف ،باب جواز صلوة النافلة علی الدابة فی السفر ص ٢٤٤ نمبر ١٦١٤٧٧٠)اور یومی کا لفظ دوسری حدیث میں ہے وہ یہ ہے ۔عامر بن ربیعة اخبرہ قال رأیت النبی ۖوھو علی الراحلة یسبح یؤمی برأسہ قبل الی ای وجہ توجہ ولم یکن رسول اللہ ۖ یصنع ذلک فی الصلوة المکتوبة ۔ (بخاری شریف ، باب ینزل للمکتوبة ص١٤٨ نمبر ١٠٩٧ ) اس حدیث میں ہے کہ حضور ۖ سر کے اشارے سے نفل نماز پڑھتے تھے ۔
ترجمہ: ٢ اسلئے کہ نوافل کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے ، پس اگر مصلی کو اتر نا لازم کریں اور قبلے کا استقبال لازم کریں تو اس سے نفل چھوٹ جائے گی ، یا وہ قافلے سے دور ہو جائے گا ۔
تشریح : نوافل کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے کسی وقت بھی پڑھ سکتا ہے اسلئے اگر نفل پڑھنے کے لئے یہ شرط لگائیں کہ سواری سے نیچے اترے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر ہی نفل پڑھے تو اس صورت میں بہت مرتبہ نماز نہیں پڑھ سکے گا ، پھر اتر کر نماز پڑھے گا تو قافلے سے دور ہو جائے گا اس سہولت کی خاطر نہ اتر نے کی شرط لگائی اور نہ استقبال قبلہ کی شرط لگائی تاکہ ہمہ وقت نفل پڑھ سکے ۔