ینقطع عنہ ٣ واختلفوا فی کیفیة القعود والمختار ان یقعد کما یقعد فی حالة التشہد لانہ عہد مشروعًا فی الصلوٰة (٤٨٥) وان افتتحہا قائما ثم قعد من غیر عذر جاز عند ابی حنفیة ) ١ وہذا استحسان
دیا گیا تاکہ اس سے یہ خیر کا کام منقطع نہ ہو جائے ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے ۔ کہ نماز بہت اچھا کام ہے ۔ اور کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کھڑا ہو تو سکتا ہے لیکن کھڑا ہو نا دشوار ہو تا ہے اب اگر نفل نماز میں بھی ہمیشہ کھڑے ہو نے ہی کی شرط لگا دی جائے تو اس خیر کے کام سے محروم ہو جائے گا اسلئے یہ کہا گیا کہ کھڑے ہو نے پر قدرت کے با وجود بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے البتہ اس صورت میں اسکو آدھا ثواب ملے گا ۔
ترجمہ: ٣ بیٹھنے کی کیفیت میں علماء نے اختلاف کیا ہے ۔ لیکن مختار یہ ہے کہ ایسے ہی بیٹھے جیسے تشہد کی حالت میںبیٹھتے ہیں ، اسلئے کہ نماز کی حالت میں یہی مشہور بھی ہے اور مشروع بھی ہے ۔
تشریح : نفل نماز میں کس طرح بیٹھے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ لیکن جس طرح تشہد میں بیٹھتے ہیںیہ زیادہ پسندیدہ ہے ، اور نماز میں یہ مشروع ہے ، اور اس طرح کا بیٹھنا نماز میں مشہور بھی ہے ۔ تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرے اور بایاں بچھائے اور اس پر سرین رکھ کر اس پر بیٹھ جائے ۔ ۔ اس کے لئے یہ حدیث گزر گئی ہے۔ فقال ابو حمید الساعدی.... فاذا جلس فی الرکعتین جلس علی رجلہ الیسری و نصب الیمنی واذا جلس فی الرکعة الآخرة قدم رجلہ الیسری ونصب الاخری وقعد علی مقعدتہ ۔ (بخاری شریف،باب سنة الجلوس فی التشہد ص ١٤نمبر ٨٢٨ مسلم شریف ، باب ما یجمع صفة الصلوة وما یفتتح بہ ص ١٩٤ نمبر ١١١٠٤٩٨) مسلم شریف میں یہ حدیث حضرت عائشہ سے منقول ہے (٢) عن وائل بن حجر قال قدمت المدینة قلت لانظرن الی صلوة رسول اللہ ۖ فلما جلس یعنی للتشھد افترش رجلہ الیسری ووضع یدہ الیسری یعنی علی فخذہ الیسری ونصب رجلہ الیمنی ۔ (ترمذی شریف ، باب کیف الجلوس فی التشہد ص ٦٥ نمبر ٢٩٢) ا س حدیث میں ہے کہ بایاں پاؤں بچھائے اور اس پر سرین رکھ کر بیٹھ کر جائے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے ، یہی زیادہ مختار ہے ۔
ترجمہ: (٤٨٥) اگر کھڑے ہو کر نفل شروع کی پھر بغیر عذر کے بیٹھ گیا تو جائز ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک۔
ترجمہ: ١ اور یہ استحسان ہے ۔
تشریح : کھڑا ہو کر نفل نماز پڑھ رہاتھا اسلئے بہتر یہی ہے کہ کھڑا ہو کر ہی نماز پوری کرے ، لیکن پھر بھی بغیر عذر کے بیٹھ گیا تو جائز