٧ ولہما الاعتبار بالتراویح ٨ ولابی حنیفة انہ علیہ السلام کان یصلی بعد العشاء اربعًا روتہ عائشة ٩ وکان یواظب علی الاربع فی الضحیٰ
ترجمہ: ٧ صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ وہ تراویح پر قیاس کر تے ہیں ۔
تشریح : صاحبین کی رائے تھی کہ دن کی سنتیں چار چار رکعتیں ہوں اور رات کی سنتیں دو دو رکعتیں ہوں ، انکی کچھ دلیلیں اوپر گزر گئیں ، اور ایک دلیل صاحب ھدایہ نے یہ بھی دی کہ رات میں تراویح کی نماز جو سنت ہے وہ دو دو رکعت پڑھتے ہیںاسلئے رات کی اور سنتیں بھی دو دو رکعت ہی ہو نی چاہئے ۔ اس اثر میں اسکا ثبوت ہے ۔ عن ابی عمر أنہ صلی خلف ابی ھریرة و کان یصلی رکعتین ثم یسلم ثم یقوم فیوتر برکعة ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٦٨٥ فی کم یسلم الامام ، ج ثانی ، ص ١٧٠ ، نمبر ٧٧٣٤ ) اس اثر میں ہے کہ تراویح میں دو رکعت پر سلام پھیرے ، جس سے معلوم ہوا کہ تراویح دو دو رکعت ہے تو اس پر قیاس کرتے ہو ئے رات کی سنت بھی دو دو رکعت ہو نی چاہئے ۔
ترجمہ: ٨ اور امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ حضور علیہ السلام عشاء کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے اسکو حضرت عائشہ نے روایت کی ہے ۔
تشریح : حضرت عائشہ کی روایت یہ ۔عن أبی سلمة بن عبد الرحمن أنہ سأل عائشة : کیف کانت صلوة رسول اللہ ۖ فی رمضان ؟ قالت : ما کان رسول اللہ ۖ یزید فی رمضان ، و لا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة ، یصلی أربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ،ثم یصلی أربعا ً فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ، ثم یصلی ثلاثا ۔ ( مسلم شریف ، باب صلوة اللیل و عدد رکعات النبی ۖ فی اللیل ، ص ٢٩٨، نمبر ٧٣٨ ١٧٢٣) اس حدیث میں ہے کہ آپ ۖ رات کی سنتیں چار چار رکعتیںپڑھتے تھے ۔
ترجمہ: ٩ اور حضور چاشت کی نماز میں چار رکعت پر ہمیشگی کر تے تھے
تشریح : حضور ۖ اکثر و بیشتر چاشت کی نماز چار رکعتیں پڑھتے تھے ۔ اس حدیث میں ہے ۔ عن عائشة قالت : کان رسول اللہ ۖ یصلی الضحی أربعا ً و یزید ما شاء ۔( مسلم شریف ، باب استحباب صلوة الضحی و ان أقلھا رکعتان ، الخ ، ص ٢٤٩، نمبر ٧١٩ ١٦٦٥ ابن ماجة شریف ، باب فی صلوة الضحی ، ص ١٩٦، نمبر ١٣٨١) اس حدیث میں ہے کہ چاشت کی نماز چار رکعت پڑھتے تھے ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ دن کی سنت چار رکعت ہے اسلئے ایک سلام کے ساتھ چار رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔اس حدیث میںیہ تو نہیں ہے کہ حضور ۖ ہمیشہ ایسا کرتے تھے لیکن ، کان یصلی ، استمرار کا صیغہ ہے جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ آپ ۖ اکثر و بیشتر ایسا کر تے تھے ۔