٩ ولم یبین ذلک فی الکتاب اعتبارا للغالب ١٠ والخبز یعتبر فیہ القیمة ہو الصحیح ١١ ثم یعتبر نصف صاع من بروزنا فیما یروی عن ابی حنیفة وعن محمد انہ یعتبر کیلا ٢ ١ والدقیق اولٰی من البر والدراہم اولی من الدقیق فیما یروی عن ابی یوسف وہو اختیار الفقیہ ابی جعفر لانہ ادفع للحاجة واعجل بہ
قیمت آدھے صاع گیہوں سے کم ہے تو احتیاط پر عمل نہیں ہوا ، اسی طرح آدھا صاع سے کم آٹا دیا لیکن اس کی قیمت آدھا صاع گیہوں کے برابر ہے تو قیمت میں برابر ہوگیا لیکن مقدار میں کم رہ گیا اس لئے احتیاط پر عمل نہیں رہا ۔
ترجمہ: ٩ لیکن کتاب یعنی متن میں احتیاط پر عمل کر نے کی بات نہیں کی غالب کا اعتبار کر تے ہوئے ۔
تشریح : عام طور پر آدھے صاع آٹے کی قیمت آدھے صاع گیہوں کی قیمت سے زیادہ ہو تی ہے ، یا برابر ہو تی ہے اس لئے غالب کا اعتبار کر تے ہوئے متن میں یہ نہیں فر ما یا کہ احتیاط پر عمل کیا جائے ۔
ترجمہ: ١٠ اور روٹی میں قیمت کا اعتبار ہے صحیح بات یہی ہے ۔
تشریح : روٹی عددی ہے وہ گن کر بکتی ہے ، وہ کیلی یا وزنی نہیں ہے ، اس لئے چاہے گیہوں کی روٹی ہو آدھا صاع دینا کا فی نہیں ہے ، بلکہ اتنی روٹی دے کہ آدھا صاع گیہوں کی قیمت کے برابر ہو جائے ۔
ترجمہ: ١١ پھر آدھا صاع گیہوں میں وزن کا اعتبار کیا جائے جیسا کہ حضرت امام ابو حنیفہ سے روایت ہے ۔ اور امام محمد سے روایت یہ ہے کہ کیل اور ناپ کا اعتبار کیا جائے ۔
تشریح : گیہوں چاول وغیرہ کو ناپنے کے دو طریقے ہیں ]١[ ایک تو پیمانے سے نا پا جائے یعنی کسی برتن میں ڈال کر اس کو نا پا جائے جسکو صاع ، اور مد کہتے ہیں حضور ۖ کے زمانے میں غلہ کو ناپنے کا یہی طریقہ رائج تھا ، اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ آدھا صاع گیہوں دو یا ایک صاع کھجور دو ، جسکا مطلب یہ ہوا کہ حدیث میں برتن میں ناپ کر دینے کا تذکرہ ہے ، چنانچہ حضرت امام محمد کی رائے یہی ہے کہ برتن میں ناپ کر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جو دیا جائے ۔]٢[ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی باٹ سے وزن کر کے نا پا جائے ، جیسا کہ آج کل تمام غلے باٹ اور کیلو سے ناپ کر وزن کر تے ہیں ۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ نے فر ما یا کہ باٹ سے وزن کر کے آدھا صاع گیہوں دیا جائے ، اس کی وجہ یہ فر ما تے ہیں کہ علماء کا اختلاف رہا ہے کہ ایک صاع کتنے رطل کا ہو گا ، اور رطل وزن کا نام ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آدھا صاع گیہوں وزن کر کے دیا جائے اور وزن کا اعتبار کیا جائے ۔
ترجمہ: ٢ ١ آٹا دینا گیہوں سے زیادہ بہتر ہے ، اور درہم دینا آٹے سے زیادہ بہتر ہے ، جیسا کہ امام ابو یوسف سے روایت ہے اور اسی کو فقیہ ابو جعفر نے پسند فر ما یا ہے ، کیونکہ درہم ضرورت کو زیادہ پورا کر تا اور جلدی پورا کر تا ہے ۔