٥ والاربع قبل الظہر بتسلیمة واحدة عندنا کذا قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (٤٧٠)قال ونوافل النہار ان شاء صلی بتسلیمة رکعتین وان شاء اربعًا وتکرہ الزیادة علیٰ ذٰلک فاما نافلة اللیل قال ابوحنیفة ان صلی ثمان رکعات بتسلیمة جازوتکرہ الزیادة علٰی ذٰلک وقالا لا یزید باللیل علیٰ رکعتین بتسلیمة )
٣٥٢ ، نمبر ٨٨١ ٢٠٣٦ ابن ماجة شریف ، باب ما جاء فی الصلوة بعد الجمعة ، ص ١٥٨ ، نمبر ١١٣٢) ان حدیثوں میں ہے کہ جمعہ سے پہلے ایک سلام کے ساتھ چار رکعت پڑھے اسلئے امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ایک سلام کے ساتھ چار رکعت نفل پڑھنا افضل ہے۔
ترجمہ: ٥ اور ظہر سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ ہمارے نزدیک ہے ، حضور علیہ السلام نے ایسا ہی فرمایا ۔
تشریح : ہمارے نزدیک ظہر سے پہلے چار رکعتیں سنت ہیں ۔ (١)اسکے لئے یہ حدیث گزر چکی ہے ۔سألت عائشة عن صلوة رسول اللہ ۖ عن تطوعہ؟ فقالت کان یصلی فی بیتی قبل الظھر اربعا (مسلم شریف ، باب جواز النافلة قائما وقاعدا ص ٢٥٢ نمبر ١٦٩٩٧٣٠ ابو داؤد شریف ، ابواب التطوع ورکعات السنة ص ١٨٥ نمبر ١٢٥١ ترمذی شریف ، باب ما جاء فی من صلی فی یوم ولیلة ثنتی عشرة رکعة من السنة ما لہ من الفضل ص ٩٤ نمبر ٤١٤ ) اس حدیث میں ہے کہ ظہر سے پہلے حضور ۖ چار رکعت سنت پڑھتے تھے ۔(٢) قالت ام حبیبة زوج النبی ۖ قال رسول اللہ ۖمن حافظ علی اربع رکعات قبل الظھر واربع بعدھا حرم علی النار(ابو داؤد شریف ، باب الاربع قبل الظہر وبعدھا ص ١٨٧ نمبر ١٢٦٩) اس حدیث سے معلوم ہوا ظہر کی سنت چار رکعتیں ہیں
ترجمہ: ٦ اور اس میں امام شافعی کا اختلاف ہے ۔
تشریح : امام شافعی کی رائے ہے کہ ظہر کی سنت دو سلاموں کے ساتھ چار رکعت پڑھے ۔
وجہ : ان کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابن عمر عن النبی ۖ قال صلوة اللیل والنھار مثنی مثنی ان تشھد فی کل رکعتین ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی صلوة النھار ص ١٩٠ نمبر ١٢٩٥)اس حدیث میں ہے کہ رات اور دن کی سنتیں دو دو رکعت کر کے پڑھے اسلئے ظہر کہ چار سنتیں بھی دو سلاموں کے ساتھ پڑھے ۔
ترجمہ: (٤٧٠) دن کے نوافل اگر چاہے تو ایک سلام سے دو رکعتیں پڑھے ، اور اگر چاہے تو چار پڑھے ، اور اس پر زیادتی کر نا مکروہ ہے ، بہر حال رات کی نفلیں تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اگر آٹھ رکعتیںایک سلام کے ساتھ پڑھے تو جائز ہے ، اور اس پر زیادتی کر نا مکروہ ہے ، اور صاحبین فر ماتے ہیں کہ رات کی نوافل میں ایک سلام کے ساتھ دو رکعتوں پر زیادتی نہ کرے ۔