٢ وفسر علیٰ نحو ماذکر فی الکتاب غیر انہ لم یذکر الاربع قبل العصر فلہذا سماہ فی الاصل حسنا وخیر لاختلاف الاٰثار والافضل ہو الاربع ٣ ولم یذکر الاربع قبل العشاء ولہذا کان مستحبا لعدم المواظبة۔
ترجمہ: ٢ اور حدیث میں ایسی ہی تفسیر کی جیسا کہ متن میں ذکر کیا گیا ہے ۔ البتہ عصر سے پہلے چار رکعتوں کا ذکر نہیں ہے اسی لئے مبسوط میں اسکو حسن کہا ہے ، اور احادیث میں اختلاف ہو نے کی وجہ سے چار اور دو میں اختیار دیا گیا ہے ۔ لیکن افضل چار رکعتیں ہیں ۔
تشریح : جس طرح متن میں رکعتوں کی تعداد مذکور ہے اسی طرح حدیث میں بھی ذکر کی گئی ہے البتہ اس حدیث میں عصر سے پہلے چار رکعتوں کا تذکرہ نہیں ہے ۔ چونکہ اس حدیث میں عصر سے پہلے چار رکعتوں کا تذکرہ نہیں ہے اسلئے مبسوط میں اسکو حسن کہا ہے ، اور اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض حد یث میں چار رکعت سنت کہا ہے اور بعض حدیث میں دو رکعت سنت کہا ہے ۔ ۔ اسلئے عصر سے پہلے نماز حسن ہے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ چار رکعت پڑھے ۔
وجہ : (١) عن ابن عمرقال قال رسول اللہ ۖ رحم اللہ امرء صلی قبل العصر اربعا (ابو داؤد شریف ، باب الصلوة قبل العصر ص ١٨٧ نمبر ١٢٧١ ترمذی شریف ،باب ماجاء فی الاربع قبل العصر ص ٩٨ نمبر ٤٣٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عصر سے پہلے چار رکعت سنت ہیں۔لیکن دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دو رکعتیں سنت ہیں۔ حدیث میں ہے عن علی ان النبی ۖ کان یصلی قبل العصر رکعتین ۔ (ابو داؤد شریف ، باب الصلوة قبل العصر ص ١٨٧ نمبر ١٢٧٢ ترمذی شریف ،باب ماجاء فی الاربع قبل العصر ص ٩٨ نمبر ٤٢٩) اس حدیث کی بنا پر صاحب کتاب نے فرمایا کہ عصر کی سنت دو رکعت بھی پڑھ سکتا ہے۔
ترجمہ : ٣ اور عشاء سے پہلے چار رکعتوں کا تذکرہ اوپر کی حدیث میں نہیں ہے ، اسی لئے وہ مستحب ہیں ۔ اور اسلئے بھی کہ حضور ۖ نے اس پر ہمیشگی نہیں کی
تشریح : اوپر کی صاحب ھدایہ کی پیش کردہ حدیث میں اس بات کا بھی ذکر نہیں ہے کہ عشاء سے پہلے چار رکعت سنت ہے یا نہیں ۔ اس لئے علماء نے اسکو مستحب کہا ہے ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ۖ نے اس سنت کو ہمیشہ نہیں پڑھی ہے اسلئے بھی یہ مستحب ہے۔
وجہ : چونکہ عشا سے پہلی چار رکعت پڑھنے کی دلیل حدیث مشہورہ میں نہیں ہے اس لئے عشا سے پہلے چار رکعتیں مندوب ہیں ۔ اور چونکہ منع نہیں فرمایا اور حدیث میں ہے عن عبد اللہ بن مغفل قال قال النبی ۖ بین کل اذانین صلوة بین کل