٥ وعن محمد انہ یقومہا بالنقد الغالب علی کل حال کما فی المغصوب والمستہلک
(٨٠٦) واذا کان النصاب کاملا فی طرفی الحول فنقصانہ فیما بین ذٰلک لا یُسقِط الزکوٰة)
١ لانہ یشق اعتبار الکمال فی اثنائہ اما لا بد منہ فی ابتدائہ للانعقاد وتحقق الغناء وفی انتہائہ للوجوب ولا کذلک فیما بین ذٰلک لانہ حالة البقاء
ترجمہ: ٥ اور امام محمد سے روایت یہ ہے کہ ہر حال میں نقد غالب سے سا مان کی قیمت لگائی جائے گی ۔ جیسا کہ غصب کیا ہوا اور ھلاک کیا ہوا مال میں ہو تا ہے ۔
تشریح : ]٤[ یہ چوتھا قول ہے ۔ امام محمد فر ماتے ہیں کہ ہر حال میں سامان کی قیمت اس نقد سے لگائی جائے گی جسکا رواج شہر میں زیادہ ہو ۔ پھر اس کی دو مثالیں دیتے ہیں ایک یہ کہ اگر کسی نے کسی کی کوئی چیز غصب کر لی، اورچیز ہلاک ہو گئی اور وہ چیز ایسی تھی جسکی قیمت واجب ہوتی تھی، جسکو ذواة القیم ،کہتے ہیں تو اس کی قیمت اس نقد سے لگائی جاتی ہے جس کا رواج زیادہ ہو ،۔ اسی طرح کسی نے کسی کی چیز امانت کے طور پر لی اور اس کو ہلاک کر دیا تو اس کی قیمت اس نقد سے لگے گی جس کا رواج شہر میں زیادہ ہو ، جس کو نقد غالب کہتے ہیں ۔بندے کے یہاں بھی یہی ہے اور شریعت بھی اس کو قبول کرتی ہے ۔ اسی طرح زکوة میں بھی نقد غالب سے ہی سامان کی قیمت لگائی جائے گی ۔
وجہ: کسی چیز کی قیمت لگا کر زکوة دینے کی دلیل پہلے گزر چکی ہے۔(بخاری شریف، باب العروض فی الزکوة ص ١٩٤ نمبر ١٤٤٨ ابو داؤد شریف، باب زکوة السائمة ص ٢٢٥ نمبر ١٥٧٢١٥٦٧)۔
ترجمہ: (٨٠٦)اگر نصاب سال کے دونوں کناروں میںکامل ہو تو سال کے درمیان نقصان ہونا زکوة ساقط نہیں کرتا۔
تشریح: مثلا رمضان میں کسی مال کا مکمل نصاب ہے اور محرم میں نصاب سے کم ہوگیا پھر رمضان میں نصاب مکمل ہو گیا تو زکوة واجب ہوگی۔ ہاں اگر درمیان سال میں نصاب کا مکمل ہی مال ختم ہو گیا تو چونکہ بالکل جڑ سے مال نہیں رہا اس لئے اب جب سے نصاب ہوگا اس وقت سے زکوة کا مہینہ شروع ہوگا ۔
وجہ : شروع میں نصاب ہونا زکوة کے انعقاد کے لئے ہے اور اخیر میں نصاب ہونا زکوة واجب ہونے کے لئے ہے، اور درمیان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
ترجمہ : ١ کیونکہ درمیان سال میں پورے نصاب کے اعتبار کر نے میں مشقت ہے ، ہاں شروع سال میں نصاب کا پورا ہو نا ضروری ہے زکوة منعقد ہو نے کے لئے اور مالداری کے تحقق کے لئے ، اور آخیر سال میں زکوة واجب ہو نے کے لئے ، اور درمیان سال میں اس کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ بقاء کی حالت ہے ۔