٢ وفی الاصل خیّرہ لان الثمنین فی تقدیر قیم الاشیاء بہما سواء ٣ وتفسیر الانفع ان یقوّمہا بما یبلغ نصابا ٤ وعن ابی یوسف انہ یقومہا بما اشتری ان کان الثمن من النقود لانہ ابلغ فی معرفة المالیة وان اشتراہا بغیر النقود قومہا بالنقد الغالب
سونے سے قیمت لگائی جائے ، اس میں غرباء کا فائدہ ہے ۔ اس لئے یہ قول احتیاط پر مبنی ہے اور فقراء کے فائدے کے لئے ہے ۔
ترجمہ: ٢ اور اصل مبسوط میں قیمت لگانے میں اختیار دی ہے اس لئے کہ چیزوں کی قیمت لگانے میں دو ثمن برابر ہیں۔
تشریح : یہ امام ابو حنیفہ کا دوسرا قول ہے کہ دو نوں میں سے کسی ایک سے قیمت لگانے کا اختیار ۔ امام محمد کی کتاب الاصل ، جسکو مبسوط کہتے ہیں اس میں ہے کہ درہم اور دینار دو نوں میں سے جس سے بھی سامان کی قیمت لگائے دو نوں جائز ہے ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دو نوں ثمن ہیں اور شریعت میں دو نوں سے قیمت لگائی جا سکتی ہے ۔مبسوط کی عبارت یہ ہے ۔ قلت : أرأیت الرجل التاجر یکون فی یدیہ الرقیق قد اشتراہ بدنانیر أو بدراہم و فی یدیہ المتاع قد اشتراہ بغیر ما اشتری بہ الرقیق کیف یزکیہ عند رأس الحول ؟ أیقوم ذالک کلہ دراھم أو دنانیر ثم یزکیہ ؟ قال : أی ذالک ما فعل أجزی عنہ۔ ( کتاب الاصل ، باب زکاة المال ، ج ثانی ، ص ٧٥، مطبوعہ عالم الکتاب ، بیروت ) عبارت کے آخیر کے میں ہے ٫أ ی ذالک ما فعل أجزی عنہ،کہ دو نوں میں سے کسی سے بھی قیمت لگائے درست ہے ۔
ترجمہ: ٣ اور انفع کی تفسیر یہ ہے کہ سامان کی قیمت اس ثمن سے لگائے کہ نصاب زکوة تک پہنچ جائے ۔
ترجمہ: ٤ ]٣[ یہ تیسرا قول ہے۔ امام ابو یوسف کی روایت یہ ہے کہ جس ثمن سے سامان خریدا ہے اسی سے قیمت لگائے ، اگر ثمن نقد میں سے ہو تو ، اس لئے کہ مالیت کے پہچاننے میں یہ زیادہ آسان ہے ۔اور اگر سامان کو نقد کے علاوہ سے خریدا ہے ، تو جو نقد شہر میں زیادہ چلتا ہو اس سے اسکی قیمت لگائی جائے گی۔
تشریح : امام ابو یوسف فر ماتے ہیں کہ مثلا سامان کو درہم سے خریدا ہے تو اسی سے اسکی قیمت لگائے جائے ، اور دینار سے خریدا ہے تو دینار سے اسکی قیمت لگائی جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ درہم یا دینار سے قیمت لگ چکی ہے اس لئے اس سے سامان کی قیمت پہچاننا آسان ہو گا، دوسرے نقد سے قیمت پہچاننا اتنا آسان نہیں ہو گا ۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو گا کہ سامان کو درہم یا دینار جیسے نقدی چیز سے خریدا ہو ، لیکن اگر اس سامان کو کپڑا وغیرہ غیر نقدی سے پہلے خریدا ہو توجس نقد کا اس ملک میں زیادہ رواج ہو اس سے اس کی قیمت لگائی جائے گی ۔
لغت : ثمن : کا معنی ہے قیمت ، درہم ، دینار ۔ نقد : درہم ،دینار ۔ نقد غالب : شہر میں جس سکے کا رواج زیادہ ہو اس کو نقد غالب کہتے ہیں ۔ ابلغ : زیادہ مبالغہ ، یہاں مراد ہے زیادہ آسان ۔