(٧٩٧) فاذا کانت مائتین وحال علیہا الحول ففیہا خمسة دراہم ) ١ لانہ علیہ السلام کتب الیٰ معاذ ان خذ من کل مائتی درہم خمسة دراہم ومن کل عشرین مثقالا من ذہب نصف مثقال(٧٩٨) قال ولا شیٔ فی الزیادة حتی تبلغ اربعین فیکون فیہا درہم ثم فی کل اربعین درہما درہم)
لیس فیما دون خمس زود صدقة من الابل و لیس فیما دون خمس اواق صدقة۔ (بخاری شریف ، باب زکوة الورق ص ١٩٤ نمبر ١٤٤٧مسلم شریف ، باب لیس فیما دون خمسة اوسق صدقة ، ص ٣٩٣، نمبر ٩٧٩ ٢٢٦٣ ابو داؤد شریف ، باب فی زکوة السائمة ، ص ٢٣٢، نمبر ١٥٧٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسو درہم سے کم میں زکوة نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے تو پانچ اوقیہ دوسو درہم کے ہوںگے۔۔ ایک اوقیہ کا وزن 122.47 گرام ہو تا ہے ۔اور 10.5 تولہ ہو تا ہے۔دلیل یہ حدیث کا یہ ٹکڑا ہے ۔ عن
جابر قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول ....و لا زکاة فی شیء من الفضة حتی یبلغ خمسة أواق و الاوقیة أربعون درھما ۔ ( دار قطنی ، باب لیس فی الخضروات صدقة ، ج ثانی ، ص ٨٤، نمبر ١٩٠٥ ) اس حدیث میں ہے کہ اوقیہ چالیس درہم کا ہو تا ہے ۔
ترجمہ: (٧٩٧) پس جبکہ دو سو ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم زکوة ہے ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت معاذ کو لکھوا یا کہ ہر دو سو درہم میں پانچ درہم زکوة لو ، اور ہر بیس مثقال سونے میں آدھا مثقال سونا زکوة لو ۔
تشریح :دو سو درہم ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر پانچ درہم زکوة ہے ۔
وجہ : صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ (١) عن علی عن النبی ۖ ببعض اول الحدیث قال فاذا کانت لک مائتا درہم و حال علیہ الحول ففیھا خمسة دراھم ولیس علیک شیء یعنی فی الذھب حتی یکون لک عشرون دینارا فاذا کانت لک عشرون دینارا و حال علیہ الحول ففیھا نصف دینارفما زاد فبحساب ذلک (ابو داؤد شریف، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٨ نمبر١٥٧٣) ۔ ]٢[دوسری حدیث یہ ہے ۔ عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ۖ لا زکوة فی مال امریٔ حتی یحول علیہ الحول (دار قطنی، باب وجوب الزکوة بالحول ج ثانی ص ٧٦ نمبر ١٨٧٠) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ زکوة مال نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتی ہے۔ ۔حول کا معنی ہے سال ، اور حال : کا ترجمہ ہے گزرنا ۔
ترجمہ: (٧٩٨) پھر دوسو درہم سے زیادہ میں کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ چالیس درہم ہو جائے ،پس چالیس درہم میں ایک