٢ وکان یقول اَوّلاً یجب فیہا ما یجب فی المسانِّ وہو قول زفر ومالک۔ ٣ ثم رجع وقال فیہا واحد منہا وہو قول ابی یوسف والشافعی ٤ وجہ قولہ الاول ان الاسم المذکور فی الخطاب ینتظم الصغار والکبار
للبیھقی ، باب یعد علیھم بالسخال التی نتجت ج رابع ص١٧٣،نمبر٧٣١٤) اس اثر میں حضرت عمر نے فر ما یا کہ زکوة کے لئے بڑے کے ساتھ بکری کے بچے کو بھی شمار کیا جا ئے گا ، البتہ اس کو زکوة میں لیا نہیں جا ئے گا ۔۔ الغذاء : چھوٹے بچے
لغت : الفصلان: فصیل کی جمع ہے اونٹنی کے بچے۔ الحملان :حمل کی جمع ہے بکری کے بچے۔ العجاجیل: عجول کی جمع ہے گائے کے بچے۔
ترجمہ : ٢ اور پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ چھوٹے بچوں میں بھی اتنی ہی زکوة واجب ہو گی جتنی مسنہ میں ]یعنی بڑے میں[ یہی قول امام زفر اور امام مالک کا ہے ۔
تشریح : پہلے یہ فر ما یا کر تے تھے کہ جس طرح بڑے جانور میں تعداد پوری ہو نے کے بعد زکوة لی جا تی ہے اور اس کا ایک حساب ہے جو اوپر گزرا ، اسی طرح صرف چھوٹے بچے ہوں تب بھی بڑے کی طرح اس کی زکوة لی جا ئے گی ، اور بڑے کا ہی حساب اس میں ہو گا ۔
وجہ : (١) عن عطاء قال قلت لہ یعتد بالصغار اولاد الشاة؟ قال نعم( مصنف ابن ابی شیبة ٢٤ السخلة تحسب علی صاحب الغنم ۔ج ثانی ،ص ٣٦٨،نمبر٩٩٨٣) اس اثر میں ہے کہ چھوٹے بچے کو بھی شمار کیا (٢) اسکی دلیل عقلی یہ ہے کہ حدیث میںغنم ]بکری[ پر زکوة ہے اورغنم چھوٹے بچے پر بھی بو لا جا تا ہے اس لئے صرف بچہ ہو تب بھی اس پر بڑے کی زکوة ہو گی ۔
ترجمہ: ٣ پھر اس سے رجوع کر گئے اور فر ما یا کہ اس میں سے ایک ہے ، یہی قول امام ابو یوسف اور شافعی کا ہے ۔
تشریح : امام ابو حنیفہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ صرف بچے جتنے بھی ہوں سب میں ایک بچہ زکوة میں دے دیا جا ئے ۔یہی قول امام ابو یوسف اور امام شافعی کا ہے۔
وجہ : (١) اسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں زکوة واجب کیا جس سے غریبوں کا فائدہ ہوا ، اور بڑے جانور کی طرح نہیں کیا بلکہ صرف ایک بچہ لازم کیا اس سے مالک کا فائدہ ہے تو اس قول میں دونوں جانب کا فائدہ ملحوظ ہے۔
ترجمہ: ٤ پہلے قول کی وجہ یہ ہے کہ خطاب میں جو نام ذکر کیا ہے وہ چھوٹے اور بڑے سب کو شامل ہے ۔
تشریح : پہلا قول یہ تھا کہ چھوٹے کا حساب بھی وہی ہے جو بڑے کا ہے ، یعنی جس عدد میں بڑے جانور میں زکوة واجب ہو تی ہے اسی تعداد میں چھوٹے بچے میں بھی زکوة واجب ہو گی اور بڑے جانور جتنی ہی زکوة ہو گی ۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں اونٹ ،