(779) ويؤخذ في زکو?ة الغنم الذکور والاناث) 1 لان اسم الشاة ينتظمہما وقد قال عليہ السلام في اربعين شاة شاة وا? اعلم?
تشریح : بکری کا جذع زکوة میں جائز ہے اس سلسلے میں اوپر ابو داود شریف کی حدیث گزری جس میں تھا ۔ قالا عناقا جذعة أو ثنیة ۔( ابو داود شریف ، باب فی زکوة السائمة ، ص ٢٣٤، نمبر ١٥٨١) اس جذع کا مطلب بتاتے ہیں کہ وہ اونٹ کے جذع کے بارے میں ہے کہ اس کو زکوة میں لینا جائز ہے ۔ اونٹ کا جذع اس وقت ہو تا ہے جب چار سال پورا کر کے پانچویں سال میں قدم رکھے ۔۔حدیث میں ]عناق[بکری کا لفظ مو جود ہے اسلئے صاحب ھدایہ کی یہ تاویل مشکل ہے ۔
ترجمہ: (٧٧٩) اور بکری کی زکوة میں مذکر اور مؤنث دونوں لئے جا سکتے ہیں ۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ شاة کا لفظ دو نوں کو شامل ہے اور حدیث میں حضور ۖ نے فر ما یا کہ چالیس بکری میں ایک بکری ہے ۔
تشریح : بکری یا بھیڑ کی زکوة میںمذکر اور مؤنث دونوں لینا جائز ہے بشرطیکہ درمیانہ ہو بہت اعلی یا بہت ادنی نہ ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں ہے کہ چالیس شاة میں ایک شاة ہے اور شاة کا لفظ مذکر پر بھی بولا جا تا ہے اور مؤنث پر بھی بولا جا تا ہے اس لئے دونوں کو لینا جائز ہے ۔ صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن سالم عن ابیہ قال کتب رسول اللہ ۖ کتاب الصدقة .....و فی الغنم فی کل أربعین شاة شاة الی عشرین و مأئة۔( ابوداؤد شریف ، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٦ نمبر ١٥٦٧ترمذی شریف ، باب ما جاء فی زکاة الابل و الغنم ، ص ١٦٠، نمبر ٦٢١) اس حدیث میں شاة کا لفظ ہے جو مذکر اور مؤنث دو نوں کو شامل ہے ۔