5 وجہ الظاہر حديث علي? موقوفا ومرفوعا لا يؤخذ في الزکو?ة الا الثني فصاعد ا 6 ولان الواجب ہو الوسط وہ?ذا من الصغار ولہذا لا يجوز فيہا الجذع من المعز7 وجواز التضحية بہ عرف نصا 8 والمراد بماروي الجذعة من الابل
نہیں ہے اسلئے بکری میں جذع کی زکوة جائز نہیں ہے اس میں ثنی ہی دینی ہو گی ۔ (٤) یہ اثر بھی ہے ۔فقال عمر بن خطاب : نعم نعد علیھم بالسخلة یحملھا الراعی و لا نأخذ ھا و لا نأخذ الأکولة و لا الربی و لا الماخض و لا فحل الغنم و نأخذ الجذعة و الثنیة و ذالک عدل بین غذاء المال و خیارہ ۔( سنن بیہقی ، باب السن التی تؤخذ فی الغنم ، ج رابع ، ص ١٦٩، نمبر ٧٣٠٢) اس اثر میں ہے کہ بکری کی زکوة میں جذع اور ثنی لے سکتے ہیں ۔
ترجمہ: ٥ ظاہر روایت کی دلیل حضرت علی کی حدیث ہے مو قوفا بھی اور مرفوعا بھی ، کہ زکوة میں نہیں لی جائے گی مگر ثنی یا اس سے زیادہ ۔
تشریح : حضرت علی کی حدیث مو قوفا : کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرت علی کا اپنا قول ہو حضورۖ سے حدیث کے طور پر بیان نہ کر رہے ہوں ۔ اور مرفوعا : کا مطلب یہ ہے کہ حضور ۖ سے حدیث بیان کر رہے ہوں ، ان کا اپنا قول نہ ہو ۔حضرت علی کا یہ قول ، یا حدیث کہ زکوة میں ثنی سے کم نہیں لی جا ئے گی ۔ مجھے نہیں ملی ، اور نصب الرایة والے بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ حدیث یا قول نہیں ہے ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔
ترجمہ : ٦ اور اس لئے کہ واجب وسط ہے اور جذع چھوٹے میں سے ہے اسی لئے بکری کا جذع قربانی میں جائز نہیں ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے کہ ، زکوة میں وسط مال لینے کا حکم ہے ، بہت اعلی بھی نہیں اور بہت ادنی بھی نہیں ، اور جذع تو گویا کہ بکری کا بچہ ہو گیا ، یہ ادنی ہو گیا اسلئے زکوة میں یہ جائز نہیں ۔ جذع کا شمار بچے میں ہے اسی وجہ سے بکری کا جذع قربانی میں بھی جائز نہیں ہے ، حدیث کی بنا پر صرف بھیڑ کی جذع قربانی میں جائز ہے ، اگر چہ بھیڑ میں بھی قیاس کا تقاضا یہی تھا کہ اسکی قربانی جائز نہ ہو ۔ ۔ معز : بکری ۔
ترجمہ: ٧ اور بھیڑ کے جذع کی قربانی حدیث سے پہچانی گئی ہے ۔
تشریح : یہ صاحبین کے استدلا ل کا جواب ہے ۔ انہوں نے استدلال کیا تھا کہ بھیڑ کے جذع کی قربانی جائز ہے تو جذع کی زکوة بھی جائز ہونی چاہئے، اس کا جواب ہے کہ، یہ بچہ ہے اس لئے اسکی قربانی بھی جائز نہیں ہو نی چاہئے لیکن خلاف قیاس حدیث میں اسکی قربانی جائز قرار دی ہے اسلئے صرف قربانی میں یہ کا فی ہو گا زکوة میں نہیں۔
ترجمہ: ٨ اور صاحبین نے جو حدیث روایت کی ہے اس کا مطلب یہ کہ اونٹ کے جذع میں ہمارا حق ہے ۔