(٤٦٢) ویقنت فی الثالثة قبل الرکوع )
سلاموں کے ساتھ ہے ۔ اور امام مالک کا قول بھی یہی ہے ۔
وجہ: (١)ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن ابن عمر : أن رجلا سأل رسول اللہ ۖ عن صلوة اللیل : فقال رسول اللہ ۖ صلوة اللیل مثنی مثنی فاذا خشی احدکم الصبح صلی رکعة واحدة توتر لہ ما قد صلی۔(بخاری شریف ، باب ماجاء فی الوتر ص ١٣٥ نمبر ٩٩٠ مسلم شریف ، باب صلوة اللیل وعدد رکعات النبی ۖ فی اللیل وان الوتر رکعة وان الرکعة صلوة صحیحة ص ٢٥٤ نمبر ٧٣٦ ١٧١٧) ان احادیث سے اور مسلم کی بہت سی احادیث کی بنا پر ان کے یہاں ایک رکعت وتر ہے۔ مسلم شریف کے اوپر کے باب ہی میں ہے عن ابن عمر قال قال رسول اللہ(( الوتر رکعة من آخر اللیل ))( مسلم شریف ، باب صلوة اللیل وعددرکعات النبی ۖ فی اللیل وان الوتر رکعة وان الرکعة صلوة صحیحة ص ٢٥٧ نمبر ٧٥٢ ١٧٥٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وتر ایک رکعت ہے۔
لیکن اوپر کی حدیث امام شافعی اور امام مالک کے خلاف حجت ہے ۔
نوٹ: تہجد اور صلوة اللیل کو بھی وتر کہتے ہیں جیسا کہ حدیث کے تتبع سے معلوم ہوتاہے۔(١) خود امام ترمذی نے فرمایا قال اسحق ابن ابراہیم معنی ماروی ان النبی ۖ کان یوتر بثلاث عشرة ،قال انما معناہ انہ کان یصلی من اللیل ثلاث عشرة رکعة مع الوتر فنسبت صلوة اللیل الی الوتر ۔ (ترمذی شریف ،باب ما جاء فی الوتر بسبع ص ١٠٣ نمبر ٤٥٧) اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز کو بھی شامل کرکے وتر کہتے تھے۔(٢) اوپر اس حدیث میں گزرا ۔عن ابن عمر : أن رجلا سأل رسول اللہ ۖ عن صلوة اللیل : فقال رسول اللہ ۖ صلوة اللیل مثنی مثنی فاذا خشی احدکم الصبح صلی رکعة واحدة توتر لہ ما قد صلی۔(بخاری شریف ، باب ماجاء فی الوتر ص ١٣٥ نمبر ٩٩٠ مسلم شریف ، باب صلوة اللیل وعدد رکعات النبی ۖ فی اللیل وان الوتر رکعة وان الرکعة صلوة صحیحة ص ٢٥٤ نمبر ٧٣٦ ١٧١٧) اس حدیث میں ہے کہ حضور ۖ تہجد کی نماز پڑھتے رہتے تھے اور جب صبح کا وقت ہو تا تو سب کو وتر بنانے کے لئے ایک رکعت پڑھ لیتے ، اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز کو بھی وتر کہتے ہیں ۔ اس لئے جہاں پانچ رکعت یا ایک رکعت وتر ہے وہ تہجد کی نماز کے ساتھ ہے۔وہ وتر نہیں ہے جو حنفیہ کے نزدیک تین ر کعتیں ہیں۔
ترجمہ: (٤٦٢) قنوت پڑھی جائے گی تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے ۔
تشریح: وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھے ۔امام شافعی کے نزدیک رکوع کے بعد پڑھے ۔
وجہ : (١)حدیث میں ہے۔ عن ابی بن کعب ان رسول اللہ ۖ قنت فی الوتر قبل الرکوع۔ (ابو داؤد شریف ،