٢ وہذا اذا فعل من مال نفسہ اما المتولّی یفعل من مال الوقف مایرجع الی احکام البناء دون مایرجع الی النقش حتی لو فعل یضمن (واللّٰہ اعلم بالصواب۔)
لگائے ہو نگے ۔ اسلئے تھوڑا بہت نقش و نگار کر نا عبادت ہے ۔ یہ حدیث گزر چکی ۔ عبد اللہ .... ثم غیرہ عثمان فزاد فیہ زیادة ً کثیرة ً و بنی جدارہ بالحجارة المنقوشة و القصة ، و جعل عمدہ من حجارة منقوشة و سقفہ بالساج ۔ ( بخاری شریف ، باب بنیان المسجد ، ص ٦٤، نمبر ٤٤٦ ابو داود شریف ، باب فی بناء المساجد ،ص ٧١، نمبر ٤٥١ ) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان نے تھوڑا بہت مسجدکا نقش و نگار کیا ہے ۔ اور مسجد کو مضبوط کیا ہے اسلئے تھوڑا بہت نقش و نگارکر نا جائز ہے اور مضبوط کر نا بھی جائز ہے ۔
ترجمہ: ٢ یہ تھوڑا بہت نقش و نگار کر نا اس وقت ہے کہ اپنے مال سے کیا ہو ۔ اور متولی وقف کے مال سے وہ کام کرے گا جو عمارت کی مضبوطی کی طرف لوٹتا ہو ، وہ کام نہیں کر ے گا جو نقش و نگار کی طرف لوٹتا ہو ، یہاں تک کہ اگر نقش و نگار کر لیا تو وہ ضامن ہو جائے گا ۔
تشریح : اوپر جو اختلاف آیا کہ مسجد کا نقش و نگار کر سکتا ہے یا نہیں ؟ یہ اس صورت میں ہے کہ آدمی اپنے مال سے نقش و نگار کرے یا نہیں کرے تو بعض نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ، اوربعض نے فر مایا کہ عبادت ہے ۔ لیکن اگر مسجد کا متولی وقف کے مال سے مسجد کاکام کرانا چاہے تو وہ کام کر سکتا ہے جو مسجد کی بنیاد کو مضبوط کرے کیونکہ یہی کام کرانے کے لئے لو گوں نے مال وقف کیا ہے ۔ اور جن کاموں سے نقش و نگار ہوتا ہو وہ کام نہیں کر سکتا ۔ اور اگر وقف کے مال سے نقش و نگار کیا تو متولی کو اس مال کا ضمان دینا ہو گا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جن لو گوں نے وقف کیا وہ دیوار کو مضبوط کر نے کے لئے وقف کیا ہے نقش و نگار کر نے کے لئے وقف نہیں کیا ہے اسلئے خلاف مقصد کام کیا اسلئے اس مال کا ضامن ہوگا۔