ۖ قال رفع القلم عن ثلثة عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم وعن المجنون حتی یعقل ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا ج ثانی ص ٢٥٦ کتاب الحدود ،نمبر ٤٤٠٣ ابن ماجہ شریف ، باب طلاق المعتوہ والصغیر والنائم ،کتاب الطلاق ص ٢٩٢، نمبر٢٠٤٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچے ، اور مجنون کے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے تو زکوة بھی اس کے مال میں واجب نہیں ہوگی ۔ (٢) اثر میں ہے ۔عن ابن عباس قال : لا یجب علی مال الصغیر زکاة حتی تجب علیہ الصلاة ۔( دار قطنی ، باب استقراض الوصی من مال الیتیم ، ج ثانی ، ص ٩٧، نمبر ١٩٦٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ بچے کے مال پر زکاة نہیں ہے ۔ (٣) اثر میں ہے عن ابراھیم قال لیس فی مال الیتیم زکوة حتی یحتلم۔ (مصنف ابن ابی شیبة ٤٣ ،من قال لیس فی مال الیتیم زکوة حتی یبلغ ج ثانی ، ص ٣٧٩،نمبر١٠١٢٦) اس اثر سے بھی معلوم ہوا کہ بچے کے مال میں زکوة واجب نہیں ہے۔(٤) عن ابن مسعود أنہ کان یقول أحص ما یجب فی مال الیتیم من الزکوة ، فاذا بلغ و أؤنس منہ رشدا فادفعہ الیہ ، فان شاء زکاہ و ان شاء ترکہ (مصنف ابن ابی شیبة ٤٣ ،من قال لیس فی مال الیتیم زکوة حتی یبلغ ج ثانی ، ص ٣٧٩،نمبر١٠١٢٥) اس اثر میں ہے کہ یتیم چاہے تو بالغ ہو نے کے بعد بچپنے کی زکوہ ادا کرے اور چاہے تو ادا نہ کرے ، جس سے معلوم ہوا کہ بچے کے مال میں زکوة واجب نہیں ہے ۔
]٤[چوتھی شرط مسلمان ہو نا ہے ۔(١)زکوة عبادت مالیہ ہے اور فرض ہے ، اور فرض مسلمان پر ہی ہو تا ہے ، ورنہ کافر سے جو کچھ لیا جا تا ہے وہ عبادت کے طور پر نہیں بلکہ ٹیکس کے طور پر ، اس میں کافر کو آخرت میں کوئی ثواب نہیں ہے ، کیونکہ اس پر تو اسکو یقین ہی نہیں ہے۔ (٢) اس آیت میں زکوة دینے کے لئے مسلمان کی شرط ہے ۔ الذین یقیمون الصلوة و یؤتون الزکوة و ھم بالآخرة ھم یوقنون ۔ ( آیت ٣ ، سورة النمل ٢٧) اس آیت میں ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتا ہو یعنی مسلمان ہو تب زکوة فرض ہو گی (٣) و المؤمنون و المؤمنات بعضھم أولیاء بعض یأمرون بالمعروف و ینھون عن المنکرو یقیمون الصلوة و یؤتون الزکوة و یطیعون اللہ ورسولہ أولٰئک سیرحمھم اللہ ان اللہ عزیز حکیم (آیت ٧١ سورۂ توبہ ٩) اس آیت میں بھی زکوة دینے کے لئے مسلمان ہو نے کی شرط ہے ۔
]٥[پانچویں شرط ہے کہ نصاب کا مکمل مالک ہو ۔(١)کیونکہ تھوڑے سے مال کا مالک ہوگا اور اس میں زکوة دے گا تو آج زکوة دے گا اور کل لوگوں سے زکوة مانگے گا۔اس لئے شرط لگائی کہ نصاب کا مالک ہو۔اور نصاب یہ ہے کہ سال بھر کھا پی کر دو سو درہم بچے،یا بیس مثقال سونا بچے تو اس میں چالیسواں حصہ زکوة ہے یعنی چالیس درہم میں ایک درہم لازم ہوگا۔اور اونٹ، گائے ،بکری اور کاشتکاروں کا نصاب الگ الگ ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔(٢) دلیل اس حدیث میں ہے ۔ سمعت ابا سعیدالخدری قال:قال رسول اللہ ۖ لیس فیما دون خمس ذود صدقة من الابل، ولیس فیمادون خمس اواق صدقة،ولیس فیما دون خمسة اوسق صدقة ( بخاری شریف ، باب زکوة الورق ص ١٩٤ کتاب الزکوة نمبر ١٤٤٧مسلم شریف ، باب لیس فیما